مارٹن لوتھر کنگ کے ادھورے خواب

مارٹن لوتھر کنگ کے ادھورے خواب
مارٹن لوتھر کنگ کے ادھورے خواب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

3اپریل 1968 کی شام اپنے قتل سے صرف ایک دن پہلے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنی زندگی کی بہترین اور آخری تقریر کی۔ یہ ایک الگ اور مختلف قسم کی تقریر تھی۔ اس تقریر میں قدرتی روانی، ردھم اور فلو تھا۔

اس تقریر کے دوران بادشاہ پر جیسے وجدان اور معرفت کی کیفیت طاری تھی۔واضح طور پر محسوس ہوتا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے باتیں کر رہاہے۔ویسے بھی وہ بلا کا مقرر تھا اور اس کی تقریر کے دوران لوگوں پر سحر طاری ہو جاتا تھا۔ وہ مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے پہاڑ کی اونچائی سے ارض موعودہ کو دیکھا ہے۔ اور آپ سب کو بھی بتانا چاہتا ہوں کہ شاید میں آپ کے ساتھ وہاں نہ جا سکوں لیکن بحیثیت قوم ہم ایک دن اس امن، برابری اور محبت کی سر زمین تک ضرور پہنچیں گے۔

اپنی ذات کے بارے میں کہا کہ ہر انسان کی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ لمبی زندگی پاؤں مگر خدا کی رضا پر راضی رہنا چاہتا ہوں۔ میں اس وقت پریشان ہوں اور نہ ہی کسی چیز کے بارے میں فکرمند۔ میں آج کی رات خوش ہوں اور مجھے کسی بات کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ اسے اپنی زندگی کو لاحق خطرات کا بخوبی اندازہ تھا اور اپنی موت کا یقین تھا۔ اس کا واضح اظہار بھی اسی تقریر میں کردیا تھا۔

جو سچ ثابت ہوا اور اگلے روز 4 اپریل کی شام ہوٹل کی بالکونی میں کھڑے 39 سالہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو ایک سفید فام نسل پرست امریکی نے گولی مار کر قتل کر دیا۔

دنیا بھر کے انسانوں کو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر جیسے لوگوں کا احسان مند اور شکر گزار ہونا چاہیے۔ کیونکہ انھوں نے غیر معمولی طریقے سے سوچا اور عمل کیا۔ پٹڑی، پگڈنڈی اور بنے بنائے راستوں پر چلنے کے بجائے پر خطر، مشکل اور پر آشوب راہ کا انتخاب کیا۔ دنیا کی بدصورتی کم کرنے کے لیے اپنی خوبصورت زندگی داؤ پر لگادی۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے والد سیاہ فام مشنری تھے۔ ان کا شمار امریکہ کی سول رائٹس موومنٹ کے ابتدائی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپلز (NAACP) کے مقامی لیڈر تھے۔ بیٹے کا ابتدائی نام "مائیکل کنگ"، رکھا گیا تھا۔مگر 1934 میں یورپ کے دورے کے دوران جرمنی جاکر وہ پاپائیت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے پروٹیسٹنٹ فرقے کے بانی ,, مارٹن لوتھر،، سے بے حد متاثر ہوئے۔ واپس آ کر انھوں نے اپنا اور بیٹے کا نام تبدیل کردیا۔ اپنا مارٹن لوتھر کنگ سینئر اور بیٹے کا مارٹن لوتھر کنگ جونیئر رکھ لیا۔ اور بیٹے کو شہری حقوق کی تحریک کی جانب بھی راغب کیا۔
15 جنوری 1929 کو اٹلانٹا جارجیا میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے پیدا ہونے سے بہت پہلے 1864 میں ابراہیم لنکن نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے امریکہ میں تمام غلاموں کی آزادی اور غلامی پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا۔ تاہم محض قوانین کے نفاذ سے صدیوں سے رائج نسلی منافرت، نفرت، تعصب، تحقیر آمیز رویہ،جبر اور استحصال کا ظالمانہ نظام کو اتنی آسانی سے کہاں بدلا جا سکتا تھا؟
1875 میں خانہ جنگی کے بعد تعمیر نو کے مرحلے میں امریکہ کی جنوبی ریاستوں نے فیڈریشن اور ریاستوں کی لڑائی کے بعد ملنے والی نئی دستوری خود مختاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاہ فام باشندوں کو سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر محکم رکھنے کے لیے قوانین نافذ کرنے اور نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے۔

افریقن امریکن باشندوں پر تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ،روزگار اور تفریح سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی روا رکھا جانے لگا۔ ان قوانین اور قواعد و ضوابط کی مدد سے بد ترین معاشی اور سیاسی استحصال کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ روزگار اور ملازمتیں ختم کردی گئیں یا اجرت کم دی جانے لگی۔ ووٹ کے حق میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اس کا استعمال ناممکن بنا دیا گیا۔ امریکی سیاہ فام باشندوں کے لیے یہ دور ظلم ؤ ستم، آ زمائش، کڑے امتحان اور انسانیت سوز سلوک کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

شہری آزادیوں اور مساوی معاشی حقوق کی کوئی آواز کہیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہر طرف مایوسی اور ناامیدی کا راج تھا۔ نسلی امتیاز کے خاتمے، بنیادی شہری حقوق، روز گار اور آزادی کیلئے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور ان کے ساتھی آ ٹھ سال سے جدوجہد تو کر رہے تھے مگر اس میں کامیابی کے کوئی آثار نظر نہ آنے کے باعث جوش و خروش اور جذبہ ماند پڑتا جا رہا تھا۔ لیکن پھر یکایک ایک چنگاری بھڑکی جس کی آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 1955 میں اوپر تلے دو واقعات رونما ہوئے۔

البامہ کے شہر منٹگمری میں پندرہ سالہ سیاہ فام طالبہ کلاڈیٹ کولون سرکاری بس میں سوار تھی۔ علاقے کے نافذ العمل قواعد و ضوابط کے مطابق نووارد گوروں کے لیے سیاہ فام مسافروں کو اپنی نشست خالی کرنا پڑتی اور بس کے پچھلے حصے میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا تھا۔
اگلے سٹاپ پر ایک گورا سوار ہوا۔ لڑکی نے اس گورے کے لیے سیٹ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت تک اس قانون کو توڑنے کا تصور بھی نہیں تھا۔اس بات پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملے کا جائزہ لینے والی کمیٹی میں مارٹن لوتھر کنگ شامل تھے۔ اسی دوران ایک دوسرے واقعہ میں 42 سالہ سیاہ فام خاتون روزا پارکس نے بھی بس میں سوار ہونے والے گورے کے لیے نشست خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ جھگڑے اور احتجاج کے بعد خاتون کو گرفتارکر لیا گیا۔ اگلے روز مقامی عدالت نے دس ڈالر جرمانہ عائد کر دیا۔ان واقعات سے لوگوں میں غم وغصہ اور بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ سیاہ فام لوگوں کو اکثریت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔

اور سڑکوں پر نکل آ ئی۔مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی قیادت میں مساوی شہری حقوق تحریک نے بسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔کنگ کا ہاتھ حالات کی نبض پر تھا اور اسے عوامی تحریک کے ا بھار کا یقین تھا۔بائیکاٹ تحریک کامیاب ہو گئی۔ بس کمپنی انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بسوں، ٹرینوں اور عوامی مقامات پر نسلی امتیازی سلوک کے حامل قواعد و ضوابط ختم کر دیئے گئے اور نسلی امتیاز برتنے کو قابل سزا قرار دے دیا گیا۔
مارٹن لوتھر کنگ اس تحریک میں گرفتار ہوکر جیل گئے۔ گھر بم دھماکہ سے تباہ کر دیا گیا۔ چاقو سے قاتلانہ حملہ ہوا۔ لیکن انہوں نے تحریک میں عدم تشدد کے اصول پر سختی سے عمل کیا۔ اور گوروں کے خلاف بولنے اور نفرت پھیلانے کے بجائے ساہ فاموں کی حالت زار بیان کی اور آزادی اور روزگار کا مطالبہ کیا۔اب سیاہ فام پوری طرح منظم اور متحرک ہو چکے تھے۔ اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ان کے بلاشرکت غیرے لیڈر تھے۔ اور وہ بلا شبہ ایک منفرد، انقلابی، مخلص اور دلیرانہ سوچ وفکر رکھنے والے مدبر رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
پر امن احتجاجی ریلیاں جاری تھیں۔ کنگ کا پیغام لوگوں تک پہنچ کر اثر دکھا رہا تھا۔ سلسلہ چلتا رہا۔ لوگ جڑتے گئے۔ اثرات سیاہ فام طبقے سے نکل کر سارے امریکی معاشرے میں پھیلنے لگے۔ سفید فام نسل کے لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں ان اجتماعات میں شرکت شروع کر دی۔ بلا آخر اس بے مثل، لازوال اور تاریخی جدوجہد کے نقطہء عروج کا دن آن پہنچا۔

28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں ابراہیم لنکن کی یاد گار کے وسیع وعریض میدان میں کہ جہاں کنگ اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ 35سے چالیس ہزار لوگ احتجاجی ریلی میں آ گئے تو بہت بڑی کامیابی ہوگی مگر وہاں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کا جم غفیر امڈ آیا۔شرکاء میں صرف کالے اور غریب لوگ نہیں تھے۔

بلکہ سفید فام اشرافیہ،فلم میکرز،صحافیوں، فنکاروں، دانشوروں، وکلاء ،سیاسی و سماجی کارکنوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے انتہائی جوش و خروش سے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء کا جذبہ اور جنون دیدنی تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنی زندگی کی یاد گار ترین، تاریخی اور شہرہ آفاق تقریر کی۔ جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔

شعلہ بیان مقرر نے "میرا ایک خواب ہے "کے عنوان کے تحت نفرت، تعصب، استحصال، نسلی امتیاز سے پاک جمہوری، مساوی، مثالی مجوزہ اور مطلوبہ امریکی ریاست کا ایسا نقشہ کھینچا کہ اس کے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اترتے چلے گئے۔
یہ تقریر ٹی وی پر براہ راست دکھائی جا رہی تھی۔ اس تقریر نے پورے امریکہ کو ہلا کے رکھ دیا۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے بھی ٹی وی پر تقریر سنی۔ اگلے ہی دن کنگ اور ساتھیوں کو وائٹ ہاؤس بلا لیا۔ ہر طرف اس تقریر کا اثر واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ امریکی معاشرے کو کسی نے گہری نیند سے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا ہے۔
اگلے دو سال کے دوران امریکہ سے نسلی امتیاز کے تمام قوانین کا خاتمہ ہو گیا۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی خدمات کو کھلے دل سے سراہا گیا۔1964 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ امریکہ نے اسے پوری طرح"اون" کیا اپنا ہیرو مانا اور سر کا تاج بنا لیا۔

امریکہ کے 730 سے زیادہ شہروں کی کسی نہ کسی سڑک کا نام اس کے نام پر رکھا گیا۔ پورے امریکہ میں اس کا جنم دن منایا جاتا ہے اور سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔
انسانی وقار اور برابری کے خواب دیکھنے والے بادشاہ کے خواب آج بھی ادھورے ہیں۔ دنیا بدلی ضرور ہے مگر اس تبدیلی کی رفتار کو تیز تر کرنے اور کامیابی کی آخری منزل تک پہنچنے کے لیے رہنماؤں کو مارٹن لوتھر کنگ کی طرح اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر پیغمبرانہ قیادت کا فریضہ سر انجام دینا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -