کراچی، واردات کی ابتدائی رپورٹ درج کروانے کیلئے ایپ جاری

کراچی، واردات کی ابتدائی رپورٹ درج کروانے کیلئے ایپ جاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی(کرائم رپورٹر)کراچی پولیس چیف نے ایک ایپ جاری کی ہے جس کی مدد سے گھر بیٹھے چند سیکنڈ میں واردات کی ابتدائی رپورٹ درج کروائی جاسکتی ہے۔کراچی پولیس ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے کسی بھی واردات کی فوری رپورٹ درج کرانے اور امداد کے حصول کے لیے جدید ترین موبائل فون ایپلیکیشن تیار کرلی ہے جس کی مدد سے شہری گھر بیٹھے چند سیکنڈ میں کسی بھی قسم کی واردات کی ابتدائی رپورٹ درج کراسکیں گے۔ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر احمد شیخ کے مطابق یہ موبائل فون ایپ کراچی کے شہریوں کے لیے نئے سال کا تحفہ ہے جس میں خاص طور پر مختلف ممالک کے قونصل خانوں کی سیکورٹی اور فوری ریسپانس کا بھی آپشن رکھا گیا ہے۔اس ایپ کی مدد سے کراچی میں دنیا بھر کے قونصلیٹس بھی چند منٹ میں پولیس سے مدد حاصل کر سکیں گے۔ امیر شیخ کے مطابق اس ایپ میں گوگل سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ کراچی پولیس کی ایک پائی بھی اس ایپ پر بھی خرچ نہیں ہوئی بلکہ سکھر سے تعلق رکھنے والے ایک آئی ٹی انجینئر سید مدثر حسین اور ان کی کمپنی نے دو ماہ کی محنت سے یہ اپلیکیشن کراچی پولیس کے لیے تیار کی ہے۔ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ کے مطابق کسی بھی واردات کی کی صورت میں کسی شہری کو اب مددگار ون فائیو کے عملے کے مختلف سوالات اور ان کی کنفرمیشن میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ابتدائی اور فوری رپورٹ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں بیٹھ کر درج کراسکیں گے اور اس پر پولیس فوری طور پرمدد کے لیے کرائم کے مقام پر پہنچے گی۔ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے ایپ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پولیس کو بدلنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں جبکہ اس ایپ کی مدد سے کرائم ریکارڈ رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔انہوں نے بتایا کہ ایپ میں رجسٹریشن کرتے وقت شہری کا موبائل فون نمبر، شناختی کارڈ نمبر اور پتہ محفوظ ہوجائے گا اور پھر یہی معلومات ایپ میں اندراج کرتے ہی متعلقہ تھانے سی پی ایل سی، دیگر اداروں اور متعلقہ ایس ایس پی دفتر کوبھی موصول ہوجائے گی۔ضلعی سطح پر وکٹم سپورٹ سروس ڈیسک شکایات کو مانیٹر کرے گی۔ ڈیسک شکایت درج ہوتے ہی متاثرہ شہری سے متعلقہ پولیس کا رابطہ کرائیگی۔انہوں نے بتایا کہ اس ایپ کو شہریوں کے لیے مفید اور سعود مند بنانے کے لیے گوگل اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی مدد لی گئی ہے۔