نواز شریف کا تعاقب؟

نواز شریف کا تعاقب؟
نواز شریف کا تعاقب؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں نواز شریف کے فیملی ڈنر کی تصویر سامنے آئی تو گویا حکومت کو بھی ہوش آ گیا کہ نواز شریف کو دی گئی ضمانت کی مدت ختم ہو گئی ہے،اِس لئے اُن کی میڈیکل رپورٹ طلب کی جانا چاہئے۔خبر یہ چلی کہ وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کی اس تصویر کا نوٹس لیا ہے اور پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے نواز شریف کی طبی رپورٹ منگوانے کو کہا ہے۔ پہلی حیرت تو یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کا کیا یہی کام رہ گیا ہے؟……دوسری حیرت اِس بات پر ہے کہ نواز شریف کی بیماری کے بارے میں آخر جھوٹ پر جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے؟……جب حسین نواز ٹی وی پر آ کر یہ بیان دے رہے تھے کہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کو ہَوا لگوانے کا کہا ہے اور وہ اسی لئے باہر گئے تھے تو کئی لوگوں کے قہقہے نہیں رُک رہے ہوں گے……ہَوا خوری کے لئے تو ضروری ہے کہ آپ کسی کھلے پارک میں جائیں،کسی پُرفضا مقام کی سیر کریں۔ یہ ریسٹوران میں بیٹھ کر خوراک خوری تو ہو سکتی ہے ہَوا خوری کی گنجائش نہیں نکلتی۔ایک اور تصویر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد کی جاری گئی ہے،جس میں نواز شریف ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں ……آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا کہ نواز شریف کا تعاقب کرنے والے اُن کی تصاویر وائرل کرتے رہیں گے اور خود اُن کے عزیز و اقارب اُن کی بیماری کا ڈھنڈورا پیٹیں گے۔آخر کو تو یہ سب ختم ہونا ہے، حقیقت سامنے آنی ہے۔


پاکستانی حکومت کی حالت ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ جیسی ہے۔اُس وقت تو حوصلے اور عقل کا مظاہرہ کیا نہیں، جب نواز شریف کی بیماری کا شور مچا ہوا تھا۔اُن دِنوں تو یوں لگتا تھا، جیسے خود حکومت کو بہت جلدی ہے کہ نواز شریف کو باہر بھیج دیا جائے۔ سب سے پہلے کابینہ نے اُن کے بیرون ملک جانے کی منظوری دی۔جب تنقید ہوئی تو گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے شورٹی بانڈ کی شرط رکھ دی،مگر حکومت نے کسی بھی عدالت میں یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ وہ نواز شریف کو باہر نہیں جانے دینا چاہتی۔خود وزیراعظم نے یہ کہہ دیا کہ انہوں نے تسلی کر لی ہے، نواز شریف کی حالت واقعی خراب ہے،اِس لئے انسانی ہمدردی کے تحت وہ انہیں باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں، کیا اب اس قسم کی رپورٹیں مانگنے سے نواز شریف واپس آ جائیں گے؟ جن رپورٹوں نے ملک کے اندر رہ کر حکومت کو چاروں شانے چت کِیا،کیا اب بیرون ملک بیٹھ کر اس سے زیادہ شدید نوعیت کی رپورٹیں نہیں بنائی جا سکیں گی؟……معاملہ اگر صرف طبی رپورٹیں دیکھنے کا ہی ہے تو پھر نواز شریف کی تصاویر دیکھ کر تلملانے کا کیا جوازہے؟ایک بیمار آدمی بھی تو کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھ سکتا ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ اب نواز شریف کو اس بات کی زیادہ پروا نہیں کہ انہیں ہشاش بشاش دیکھ کر کوئی کیا سمجھتا ہے؟انہیں پتہ ہے تیر کمان سے اور شیر پنجرے سے نکل چکا ہے۔ اب حکومت کے پاس سوائے لکیر پیٹنے کے اور کچھ نہیں بچا۔
نواز شریف کو بیمار ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے بھی اب اپنا سکرپٹ تھوڑا تبدیل کرلیں،ایک ہی بات کی ٹیپ کب تک چلائی جا سکتی ہے۔ ایسی طویل بیماری تو دُنیا میں کوئی ہے ہی نہیں، جس کا دو ماہ تک پتہ ہی نہ چلے اور مریض بھی ٹھیک ٹھاک چلتا پھرتا،کھاتا پیتا نظر آئے۔

سکرپٹ میں حد درجہ جھول ہیں اور مزید حماقتوں سے یہ جھول نمایاں ہو رہے ہیں۔ہمت کر کے اس حقیقت کو بیان کر دیا جائے کہ نواز شریف روبہ صحت ہیں، تاہم ابھی پاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں۔یہ جو آئے روز حسین نواز ایک فرضی کہانی سنا کر نواز شریف کو پُراسرار بیماری میں مبتلا ظاہر کرتے ہیں، کم از کم اس سکرپٹ کو تو اب بند کر دیں۔یہاں تو اتنا عرصہ بیمار رہنے والا بیڈ سے نہیں اُٹھ سکتا،جبکہ نواز شریف تو جب سے لندن گئے ہیں، ایک دن بھی بیڈ پر لیٹے نظر نہیں آئے، بس اُن کے گاڑی میں آنے جانے کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اِس ڈرامے سے عوام کو دھوکہ دے سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے……حکومت کو بھی ڈرامہ بند کر دینا چاہئے کہ نواز شریف کا لندن میں گھومنا اُسے گوارا نہیں اور وہ انہیں واپس لا کر کوٹ لکھپت جیل میں بند کرنا چاہتی ہے……خود اپنے فیصلے سے باہر بھیجنے والے کس منہ سے یہ واویلا کر رہے ہیں کہ نواز شریف بیمار نہیں تھے،بیماری کا بہانہ کر کے چلے گئے۔حکومت اگر اپنے تمام تر وسائل اور اختیارات کے باوجود یہ تک نہیں جان سکتی کہ کون بیمار ہے اور کون بیماری کا ڈرامہ کر رہا ہے؟ تو باقی معاملات پر اُس کی گرفت کیا ہو گی؟ نواز شریف کا تعاقب کرنا اب فضول ہے۔ کوئی عدالت انہیں طلب نہیں کرے گی اور نہ ہی اُن کی ضمانت میں توسیع کا فیصلہ کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے۔یہ اختیار اب پنجاب حکومت کے پاس ہے، جسے تو اتنا بھی ہوش نہیں کہ نواز شریف کی مدتِ ضمانت ختم ہو گئی ہے؟ اب اُسے ضابطے کی کارروائی کرنی چاہئے۔تصویر دیکھ کر وزیراعظم کو ہی خیال آتا ہے کہ کوئی نواز شریف نام کا قیدی بھی تھا، جسے حکومت نے باہر جانے کی اجازت دی تھی، اب وہ قیدی لندن میں کھانے اُڑا رہا ہے تو اُس کی بیماری کا پتہ کرو۔


یہ بات پتھر پر لکیر کی مانند ہے کہ جب تک نواز شریف کی سزا ختم نہیں ہو جاتی، وہ واپس نہیں آئیں گے۔سزا کے خلاف اُن کی اپیلیں عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔پرویز مشرف کی طرح اُن کے لئے بھی معجزہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہر الزام سے بری ہو جائیں اور اُن کی غیر حاضری میں فیصلہ سنا دیا جائے۔ پاکستان میں طاقتوروں کو جیلوں میں رکھنا آسان کام تو ہے نہیں،اُن کی طبیعت خراب ہونے کی خبر آ جائے تو حکمرانوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ انہیں کچھ ہو گیا تو ہم پر دفعہ302 لگ جائے گی۔سزا یافتہ ہونے کے باوجود باہر جانے کی اجازت بھی مل جاتی ہے اور سزائے موت سنا دی جائے تو دوسری عدالت دو ہفتے میں فیصلہ کر کے نہ صرف سزا،بلکہ عدالت کو ہی غیر قانونی قرار دے دیتی ہے۔ایسے میں نواز شریف کے نام پر حکومت سیاست کیوں کر رہی ہے؟ وہ لندن میں موج کریں یا علاج کرائیں کہ اب حکومت کی سر دردی نہیں،اُس نے جو کمزوری دکھانی تھی دکھا دی، اب طاقتور بننے کا ناٹک رچانے کی کیا ضرورت ہے؟ہاں بات اُس وقت بنے گی جب پنجاب حکومت نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہیں دے گی اور انہیں واپس لانے کے لئے ضابطے کی کارروائی کا آغاز کرے گی۔ غالباً یہ دن کبھی نہیں آئے گا،

کیونکہ نواز شریف جس ضاطے کے تحت لندن گئے ہیں، اس میں ایسی کسی کارروائی کی گنجائش ہی نہیں۔پاکستان میں جتنے بھی سیاسی ڈرامے ہوتے ہیں، اُن میں ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام کو حقیقت معلوم نہ ہونے پائے۔جس طرح ابھی تک یہ عقدہ نہیں حل ہو رہا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے پر مسلم لیگ(ن) نے غیر مشروط حمایت کا اعلان کیوں کیا؟اُسی طرح یہ نکتہ بھی حل طلب رہے گا کہ نواز شریف کو اچانک سنگین بیماری کا شور مچا کر باہر جانے کی اجازت کسی ڈیل کے تحت دی گئی یا واقعی وہ حکومت کو چکر دے کر باہر چلے گئے؟…… بعض سچ کبھی سامنے نہیں آتے۔البتہ جھوٹ چھپانے کے لئے سو جھوٹ اور بولے جاتے ہیں۔ حکومت کے اضطراب سے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے نواز شریف لندن میں ہشاش بشاش چلتے پھرتے نظر آ کر کسی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،وگرنہ جو شخص ملک سے باہر چلا گیا ہے اور آزاد بھی ہے تو اُس پر قدغن کیسے لگائی جا سکتی ہے کہ وہ آئی سی یو وارڈ ہی میں نظر آئے۔نواز شریف کا تعاقب اب کار بے کار ہے۔ پرندہ اڑان بھر چکا ہے اور آنے والے دِنوں میں اُس کی پرواز سیاسی منظر نامے کو تبدیل بھی کر سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -