تکفیر اور مقدسات کی توہین عالمی امن کے لیے خطرہ ،قرآن و سنت کی تعلیمات کےبرعکس رائےکو شرعی فتویٰ قرار نہیں دیا جاسکتا:ممبران سپریم کونسل رابطہ عالم اسلامی
مکہ مکرمہ(ڈیلی پاکستان آن لائن)قرآن و سنت کی تعلیمات کےبرعکس رائےکو شرعی فتویٰ قرار نہیں دیا جاسکتا،تکفیر اور مقدسات کی توہین عالمی امن کے لیے خطرہ کا سبب ہے، تکفیر ، تشدد اور انتہا پسندی کو روکنے کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا،نوجوان نسل کو تکفیراور تشدد پھیلانے والے گروہوں سے بچانا علماء اُمت کی ذمہ داری ہے۔
یہ بات رابطہ عالم اسلامی مکۃ المکرمہ کی مرکزی سپریم کونسل کے اجلاس کے بعد مفتی اعظم شیشان الشیخ محمد صلاح مجیف ،مفتی اعظم مصرڈاکٹر شوقی علام ،مفتی اعظم کرغیستان،مفتی اعظم ازبکستان، دارالافتاء روس اور چیئرمین پاکستان علماء کونسل و صدر دارالافتاءپاکستان علامہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہی ۔ اُنہوں نے کہا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اِنسانیت کے حقوق کا محافظ ہے،اسلام کے نام پر قرآن و سنت کے برخلاف فتوے دینے والوں سے اُمت مسلمہ کو ہوشیار رہنا ہوگا ،انتہاپسند اور دہشت گرد گروہ قرآن و سنت کا نام استعمال کرکے جو فتوے بازی کرتے ہیں ان فتوؤں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہےاور نہ ہی قرآن و سنت کی تعلیمات کے برعکس کسی رائے کو شرعی فتویٰ قرار دیا جاسکتا ہے،بے گناہ لوگوں کو نقصان پہنچانے والے اسلام اور مسلمانوں کے ہرگز نمائندہ نہیں ہیں،قرآن و سنت کی روشنی میں فتوے کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے اُمت علماء کے درمیان روابط ضروری ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ اُمتِ مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے اسلامی تعاون تنظیم اور رابطہ عالمی اسلامی سے ہر سطح پر تعاون کیا جانا چاہیے ،یہ اُمتِ مسلمہ کی وحدت و اتحاد کے متفقہ فورم ہیں،اسلام جبر کی بنیاد پر کسی کو مسلمان بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔اُنہوں نے کہا کہ تکفیر اورتشدد مسلم معاشروں کے لیے انتہائی نقصان دہ اور افسوسناک ہے،اِن کے سدِباب کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنا ہو گا،اسلام اعتدال کا دین ہے،قرآن و سنت کی تعلیمات بڑی واضح ہیں ،جن میں ہمیں بار بار وحدانیت ، اتحاد اور اتفاق کا درس ملتا ہے،ہمیں اِنہی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ مسلکی تنازعات کاحل بھی قرآن و سنت میں موجود ہے،اسلام میں علماء کے اختلاف کو باعثِ رحمت قرار دیا گیا ہےجبکہ جہالت ، نفرت اورتشدد پر مبنی اختلاف اُمت کے لیے زحمت کا سبب ہے،اسلام نے جان اور خون کی حفاظت کی ہے اور اِسےسب سےنازک مسائل میں سےقرار دیا ہے،اس لئےاسلام نےانتقام لینےسےمنع کیا ہےاورافراد کےدرمیان پیش آنےوالی مشکلات کاعلاج ایسےشرعی واضح حدود و احکام اوراُصولوں سےکیاہے جو مجرموں کوسزادیتےہیں،فساد مچانےوالوں کو روکتےہیں اور زمین میں انصاف قائم کرنےمیں مدد کرتے ہیں،ہرمسلمان اِن عظیم احکام کی پابندی کرنے کاحکم دیاہے،اسلام نےتعمیر و ترقی کی دعوت دی ہے اور قدیم و جدید کو ساتھ لےکر پیش رفت اور ترقی کے اَسباب اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے،اسلام نے فساد اور فساد انگیزی کے تمام راستوں کو روکاہے،اسلام نے انسانیت کے مفادات کو ہر مقام پر ترجیح دی ہے اور جو ان مفادات کو نقصان پہنچائے یا اُمت کی سلامتی،اس کے استحکام اوراس کےاملاک و مفادات سےکھیلےاس کےخلاف وعید سنائی ہے۔
اُنہوں نےکہاکہ انتشارو افتراق کےاِس دور میں اُمت کو مشترکات پر جمع کرنے کی ضرورت ہے،علماء اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے کردار ادا کریں،اِس وقت اُمت دین کی بنیادوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے،ایسے میں عوام الناس کو اختلافات میں الجھانا افسوسناک ہے،علماء کرام نبی کریمﷺ کی دعوت و حکمت کو پیش نظر رکھیں،مکالمہ اور مفاہمت کو رواج دیاجائےاوراِسلام کےبتائےہوئےاصولوں کی پاسداری کی جائے۔اُنہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا کی لہر کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرکے روکا جاسکتا ہے،اِسلام کا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، ایک منصوبے کے تحت ان چیزوں کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی،اسلام امن ، محبت رواداری اور سلامتی کا دین ہے اور یہ پیغام ہمیں دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچانا ہوگا۔