امریکی اور پاکستانی حالات میں مماثلت!

امریکی اور پاکستانی حالات میں مماثلت!
امریکی اور پاکستانی حالات میں مماثلت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکہ میں صدر ٹرمپ کی آمد کے بعد حالات میں جو مسلسل تبدیلی آتی رہی، آج اس کے نتیجے میں واشنگٹن میں ہنگامی صورت حال ہے اور وہاں بھی پاکستان جیسی کیفیت بن گئی، تاہم ڈھائی سو سال سے قائم نظام تاحال مضبوط نظر آیا نہ تو فوج نے ٹرمپ کی حمائت کی اور نہ ہی واشنگٹن انتظامیہ کی درخواست پر کیپٹل ہل کی حفاظت کا ذمہ لیا، بہرحال وہاں کانگریس کے دونوں ایوان فعال ہیں، ٹرمپ کے حامیوں کی توڑ پھوڑ کے باوجود رسمی کارروائی جاری ہے۔

جوبائیڈن کو ہر فورم پر تصدیق مل گئی اور اب وہ 20جنوری کو حلف اٹھانے جا رہے ہیں، موجودہ نائب صدر مائیک پنس اور ٹرمپ کی صاحبزادی نے تقریب میں شرکت کا اعلان کر دیا، تاہم ٹرمپ نے انکار کیا، البتہ مجبور ہو کر وائٹ ہاؤس خالی کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ایوانِ نمائندگان سے محاسبے کی  قرارداد منظور ہو گئی تو محترم ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس چند روز پہلے خالی کرنا ہوگا، ٹرمپ شاید واحد صدر ہیں جن کا دوسری بار مواخذہ ہو رہا ہے۔ تجزیہ کار حضرات کے مطابق ٹرمپ کی نسلی تعصب والی پالیسی نے امریکہ میں جس تقسیم کو پھر سے واضح اور زندہ کیا ہے، وہ اب ختم نہیں ہوگی، تاہم جوبائیڈن کے بطور صدر حلف کے بعد اس میں کمی ضرور آئے گی کہ ڈیمو کریٹ پارٹی اور صدر نے ارادہ کر کے اس تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ بہرحال ہر کمال کو زوال تو ہوتا ہی ہے اور قدرت نے شاید ٹرمپ کے ہاتھوں اس زوال کی اینٹ رکھوا دی ہے جو بتدریج بڑھتی جائے گی۔


یہ تو امریکہ کے موجودہ حالات ہیں، جن کو اب ہمارے ملکی حالات سے مماثلت دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ امریکہ میں ادارے مضبوط اور آزاد،غیر جانبدار رائے عامہ ابھی تک اکثریت میں ہے کہ جوبائیڈن کی فتح میں اس کے مظاہرے ہوئے، حتیٰ کہ ری پبلکن کی کٹر حامی ریاستوں سے بھی جوبائیڈن کو کھلی حمایت مل گئی۔ حلف برداری کی تقریب کے موقع پر ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے مظاہروں اور تقریب کو الٹانے کی تیاریوں کی خبریں ہیں اور اسی کے پیش نظر میئر واشنگٹن نے پولیس کے ساتھ نیشنل گارڈز کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں جو حفاظتی انتظامات سنبھالے گی، امریکہ میں جو بھی ہو رہا ہے وہ وہاں کے میڈیا میں بہت تفصیل سے نشر اور شائع ہو رہا ہے۔ اس لئے ہم بھی باخبر رہتے ہیں۔


ہمارے اپنے ملک میں عرصہ سے محاذ آرائی کی کیفیت ہے جو مزید بڑھتی جا رہی ہے۔مصالحت کے حامی لوگوں کی کوئی سننے کو تیار نہیں، پی ڈی ایم کے جلسے جاری ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی اپنی حکمت عملی ہے اور پی ڈی ایم کی دو اہم جماعتیں اپنی پالیسی بنائے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ الگ الگ نظر آ رہی ہیں، لیکن اندر سے یہ سب ایک ہیں، ضمنی اور سینیٹ کے انتخابات میں میدان خالی نہ چھوڑنے اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ہے، تاہم اس کی تائید باقی جماعتوں نے بھی کر دی ہے،اب 19جنوری کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں ہونا ہے اس سے پہلے جلسوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور 19جنوری کو نیا پروگرام مرتب ہو گا، جن قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں پی ڈی ایم میں اتفاق رائے ہے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پیپلزپارٹی اور سندھ میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) نے باقاعدہ ایک دوسرے کی حمائت کی ہے اور یوں تقسیم کے تاثر کی نفی کی ہے۔


حزب اقتدار کی طرف سے یک طرفہ طور پر پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے اور ترجمانوں کے مطابق تو پی ڈی ایم ختم ہو چکی حالانکہ ملا کنڈ کے بعد لورالائی میں بھی ایک بڑا جلسہ ہو گیا ہے۔ 19جنوری کو جو اجلاس اسلام آباد میں  ہو گا، اس میں بلاول بھٹو زرداری کی شرکت شاید نہ ہو۔ شہلا رضا کے مطابق وہ اسی روز امریکہ کے لئے پرواز کر رہے ہیں، ان کو امریکی انتظامیہ کی طرف سے جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت ملی ہے وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور امریکہ میں قیام کے دوران اہم شخصیات سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیال بھی کریں گے(تاہم فرحت اللہ بابر نے دعوت کی تردید کر دی ہے) کسی اور کو مدعو کیا گیا ہے تو اس کی طرف سے اظہار نہیں ہوا، بلاول کی روانگی کے باعث پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پارٹی کا وفد شرکت کرے گا اور امکانی طور پر آصف علی زرداری جو علیل ہیں، ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کر سکتے ہیں۔

بہرحال اس مرحلے پر کوئی اہم فیصلے ممکن نہیں کہ اب جلسوں کے بعد کا پروگرام بننا ہے، جس میں لانگ مارچ اور استعفے شامل ہیں، استعفوں کے حوالے سے بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ آخری آپشن ہے، حزب اقتدار والے بڑے مطمئن اور خوش ہیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور یوں اتحاد میں تقسیم ہے اور فروری، مارچ میں حکومت کی روانگی بھی کہیں گم ہو گئی، مولانا فضل الرحمن اس کی مکمل نفی کر رہے ہیں، اور ان کے مطابق نہ صرف لانگ مارچ ہوگا بلکہ دھرنا بھی دیا جائے گا، بظاہر انتخابی عمل کا حصہ بن جانے کی وجہ سے پی ڈی ایم کی طرف سے لانگ مارچ مشکل ہو گیا ہے۔

لیکن ایسی کوئی بات باہر نہیں آ سکی، پی ڈی ایم کے فیصلے کی بنیاد یہ اطلاع ہے کہ تحریک انصاف سینٹ انتخابات جلد کرا لینا چاہتی ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں سینٹ میں بھی اکثریت بن جائے گی، اسی حوالے سے بلاول بھٹو اور مریم نواز نے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تاکہ معاملہ لٹک ہی نہ جائے۔ لانگ مارچ کی تاریخ کا تعین اب بلاول بھٹو کی امریکہ یاترا کے بعد واپسی پر ہی ہو گا، بہرحال یہ اطلاع ہے کہ ایسا مارچ میں ہو گا اور اس وقت تک ضمنی کے بعد سینیٹ انتخابات بھی ہو چکے ہوں گے۔ ان انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی میں بھی سب اچھا نہیں ہے۔

مزید :

رائے -کالم -