دیوانہ بکار خویش ہوشیار! خدارا اب ملک کا بھی سوچیں!

یہ ضیاء الحق کے دور حکومت کا ذکر ہے، جنرل چشتی فوج سے ریٹائر ہو چکے تھے تاہم کابینہ میں شامل اور وزیر صحت تھے۔ کنگ ایڈورڈ کالج کی ایک تقریب میں تشریف لائے، فنکشن کے اختتام پر رپورٹر حضرات نے اُن سے گفتگو کی۔ پہلے تو وہ رکنا نہیں چاہتے تھے، ہم سب کی کوشش کے بعد وہ ٹھہر گئے اور رپورٹر حضرات نے سوالات کئے، بعض سوالات ان کو ناگوار گزرے۔ یوں بھی وہ ذرا تیز مزاج کے تھے۔ اِس پر اُنہوں نے رپورٹرز سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو نوجوان! میں فوج سے ریٹائر ضرور ہوا ہوں لیکن یہ وردی قبر میں بھی میرے ساتھ جائے گی تاثر یہ بنا کہ شاید اب وہ فوج کے جنرل (ایکٹو) نہیں اور ریٹائر ہو چکے ہیں اِس لئے اِن سے بعض اہم نوعیت کے سوال پوچھ لئے گئے ہیں۔ ہم نے اِن کو یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں، ہم بھی اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور سوال تو جنرل ضیاء الحق سے پوچھے جاتے ہیں جو اِس وقت بھی ”ٹو اِن ون“ ہیں اور وردی سمیت صدر بھی ہیں، بڑی مشکل سے اِن کا موڈ قدرے بہتر ہوا اور پھر وہ تشریف لے گئے۔ ہاں یہ ”ٹُو اِن ون“ سے یاد آیا کہ ہمارے مہربان حضرات نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی تووردی سمیت سو بار صدر منتخب کرانے کا اعلان کیا تھا۔
یہ سب یوں یاد آ رہا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اِن کے حوالے سے بہت سی گفتنی اور ناگفتنی باتیں ہو رہی ہیں، اب تو صدر علوی نے بھی بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلافات کا ذمہ دار سوشل میڈیا کو قرار دیا ہے حالانکہ خود محترم کپتان ہی نے آغاز کیا اور سب کمزوریوں کا ذمہ دار جانے والے کو ٹھہرا دیا اور”ایک صفحہ“ والا مقولہ فراموش کر گئے۔ اِس سلسلے میں اِن کا یہ کہنا قابل غور ہے کہ پہلے میں نے اِس لئے یہ سب نہیں کہا کہ آرٹیکلچھ لگا دیا جاتا، اُن کے مطابق سروس میں موجود سربراہ فوج کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا جاتا جو اب کیا جا رہا ہے تو آئین حرکت میں آ جاتا اور حالانکہ وہ اِس عرصہ میں بھی براہ راست نہ سہی لیکن میر جعفر اور میر صادق کے القاب تو دیتے رہے تھے جس کا ثبوت اُنہوں نے بعد میں دیا کہ واضح ہو گیا یہ سب اِنہی (باجوہ) سے منسوب تھا۔ یوں تکنیکی طور پر تو ماضی میں کی جانے والی یہ باتیں اب بھی قابل گرفت ہو سکتی ہیں کہ اِن القابات کی اب جس انداز میں وضاحت کر دی گئی وہ ماضی بعید و قریب ہی میں کی گئی تھیں جب ایک صفحہ والا ”وہ صفحہ“ موجود تھا، یہ عرض اِس لئے کی کہ ایسی بات کی ہی کیوں جائے جس کی اِس انداز میں وضاحتیں کرنا پڑیں اور پھر اب تو خان صاحب کی تازہ ترین حکمت عملی یہ ہے کہ اُنہوں نے کسی بڑے کا نام لئے بغیر ادارے کی بات کی اور کہا بس! اب بات ختم، فوج سے کوئی لڑائی نہیں، وہ اک عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ دوتہائی اکثریت سے واپس آئیں گے اور اب پھر دہرایا کہ اب وہ کسی کے کہنے پر نہیں، خود فیصلے کریں گے، اِس حوالے سے میں ایک بات اور عرض کردوں کہ ”امپیریل کارپوریٹ“ والے فاروق خان (مرحوم) کے پاس بڑے بڑے سرکاری افسر آیا کرتے تھے، کبھی کبھار میں بھی وہاں جاتا تو بات چیت سننے کا اتفاق ہوتا، ایک صاحب محمد وارث جو ایس ایس پی (ریٹائرڈ) تھے اکثر آتے اور بڑی پُر مزاح گفتگو بھی ہوتی تھی۔ یہ اِن کا بھی کہنا تھا کہ وردی والے افسر کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ یوں یہ تصور کر لیں کہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کیا اور عملی زندگی میں بھی ثابت ہو ا ہے۔ میرے چند اہم صحافی دوستوں نے حال ہی میں متعدد مثالیں دے کر بتایا کہ آج تک کسی بھی ریٹائرڈ جنرل صاحب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی، میں نے تو جب کبھی کسی بات کی یا سوال پوچھا تو یہی جواب دیا گیا کہ فوج کا اپنا نظام احتساب ہے جو بہت کڑا ہے او رکسی کی غلطی معاف نہیں ہوتی۔ ہمارے یہ باخبر صحافی اِس سے بھی واقف ہوں گے۔
یہ گزارشات اِس لئے کی ہیں کہ آج کل تنقید کا عمل جاری ہے تو موجودہ مقتدر قوتوں کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے پہلے تو مداخلت کا الزام تھا مگر اب حالات میں تبدیلی آئی ہے۔ شاید اِس کی وجہ اعتماد کے ووٹ سے ہے کہ پرویز الٰہی کو مل گیا اور گورنر نے مان لیا حتیٰ کہ اب تو رانا ثناء اللہ بھی تسلیم کر چکے اور الیکشن میں مقابلے کا اعلان کر رہے ہیں، میں نے گزشتہ کالموں میں بھی عرض کیا تھا کہ غیر جانبداری ثابت ہو چکی۔اِس کی وجہ ذاتی تجربہ ہے کہ ماضی میں جب ضرورت ہوتی تھی تو تاجروں کی انجمن کے انتخابات بھی پسند کے کرا لئے جاتے تھے اور اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی کہ اعتماد کا ووٹ نہ ہو سکے تو مہربانو! یاد رکھو صرف پانچ نہیں 25اراکین غیر حاضر ہو جاتے اِس لئے جو کچھ ہے اِسے غنیمت جانو اور اگر ادارہ غیر جانبدار رہنے کی بات کر رہا اور ثبوت بھی مہیا کررہا ہے تو اِسے اِس ارادے میں مضبوط کرو کہ ہمارے ”سرحدی دشمن“ ایسے ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی اِس ادارے کی یکسوئی کی ضرورت ہے، اصل ذمہ داری تو ہمارے سیاسی اکابرین کی ہے کہ وہ خود کو آئین اور اخلاق کے ساتھ ساتھ حقیقی جمہوری روایات کا پاسبان ثابت کریں اور اِس کے لئے پارلیمنٹ کا مضبوط ہونا ضروری ہے جو حقیقی آئینی فورم ہے اور اِسی ادارے کو ملکی امو رکے فیصلے کرنا چاہئیں، یہ سب تب ممکن ہے جب ہمارے سیاسی رہنما ذاتی مفادات، انا اور اقربا پروری کو تج کر صرف اور صرف قومی مفاد کے لئے جدوجہد کریں۔ آخر کار مذاکرات میں کیا امر مانع ہے؟ جمہوریت میں ڈائیلاگ کی ہی تو اہمیت ہوتی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے درست فرمایا کہ ملکی استحکام کے لئے فریقین کو بات چیت کرنا چاہیے۔
میں ابھی یہاں (یوکے) موجود ہوں اور پاکستان نژاد حضرات کے جذبات سے مستفید ہوتا رہتا ہوں، ابھی آج ہی عظمت کہہ رہے تھے کہ وہ تو یہاں کے شہری اور امیگرنٹ ہیں لیکن اُن کے بچوں کی تو پیدائش یہاں ہوئی وہ تو امیگرنٹ نہیں، بلکہ برطانوی ہیں، اِس لئے پاکستان میں بھی یہ سوچ اور فکر ہونا چاہیے۔ وہ کہہ رہے تھے: ”ہم جو یہاں ہیں“ ہماری نظر اور فکر ہمارا آبائی ملک ہے، تشویش یہ ہے کہ اگر پاکستان کے سیاسی رہنما اور جماعتیں اپنا طرزعمل نہیں بدلیں گی تو امیگرنٹ کے بعد والی برطانوی نسل لاتعلق ہو جائے گی، اِس وقت جو بحران ہے وہ سفارتی سطح پر بھی موجود ہے، شکایات تو پہلے بھی ہوتی تھیں، اِن کی نوعیت مختلف تھی، اب تو حالت یہ ہے کہ کوئی کام نہیں ہو رہا، اگر پاکستان مستحکم ہو، وہاں یہ بے چینی اور سیاسی جھگڑے نہ ہوں تو ہم لوگ بھی سکھ کا سانس لیں گے اور اپنی اگلی نسل کو اپنے آبائی ملک کے بارے میں اچھا بتا سکیں گے“۔ میں اِن باتوں کا کوئی جواب نہیں دے پاتا کہ طویل پیشہ صحافت کی وجہ سے ”اسبغول کج نہ پھول“ والی بات ہے آج جو حالات ہیں کیا یہ کسی بھی شہری کے لئے خوش کن ہو سکتے ہیں، ہمیں وہاں حالات نے گھیر رکھا ہے اور ہمارے عزیز یہاں دکھی ہیں۔
امکان ہے کہ اِن سطور کی اشاعت تک پنجاب اسمبلی تحلیل ہو چکی ہو گی۔ یقین رکھنا چاہیے کہ اب اگلے مراحل پُرامن ہوں گے اور کچھ نہیں تو یہ رہنما حضرات اخلاق کے دائرہ کار میں رہیں گے اور اب انتخابات کے لئے اپنا اپنا منشور اور پروگرام بتائیں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی سے گریز کریں گے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ عقل سلیم عطا کرے اور میرا ملک پُرامن ہو۔