چھ ارب کی گاڑیاں اور ٹیکس چوری کا کلچر

Jan 15, 2025

نسیم شاہد

میں اسے قائل کر رہا تھا کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں اس لئے پنشن رولز میں ترمیم کرکے کمی کررہی ہے لیکن اس نے اپنے موبائل سے ایف بی آر کا ایک نوٹیفکیشن دکھایا جس میں افسروں  کے لئے ایک ہی کمپنی سے ایک ہزار دس گاڑیاں خریدنے کا آرڈر دیا گیا تھا جن کی مجموعی مالیت 6ارب روپے بنتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں گاڑیاں اس سے پہلے کبھی نہیں خریدی گئیں، یوں لگتا ہے جیسے پاکستان نیا نیا بنا ہو اور سواری کے لئے محکمے کے پاس گاڑیاں نہ ہوں، جبکہ امر واقعہ یہ ہے، ایف بی آر کے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں۔ اُن میں وہ گاڑیاں بھی ہیں جو حکومت نے دے رکھی ہیں اور وہ بھی ہیں جو سمگل ہو کر پاکستان آتی ہیں اور کسٹمز حکام پکڑ کر انہیں اپنے استعمال میں لے آتے ہیں۔ پروپیگنڈہ غریب ملک کا اور انداز شاہانہ یہ ہے  ملک کا نظام دلبرانہ یاد رہے۔ وہی ایف بی آر ہے جس کے بارے میں کرپشن کی سب سے زیادہ کہانیاں موجود ہیں۔ وزیرخزانہ نے گزشتہ دنوں کہا تھا، ملک کے مراعات یافتہ اور بااثر طبقے 16سو کھرب روپے کی ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایف بی آر کے اہلکاروں سے ملی بھگت کے بغیر تو یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ 6ارب روپے کی یہ گاڑیاں لے کر تاثر یہ دیا جائے گا افسروں کے پاس مناسب ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں تھی، جس کے باعث وہ ٹارگٹ پورا نہیں کر سکتے تھے، یہ گاڑیاں ملیں گی تو وہ نئی اورچمچماتی گاڑیوں میں فراٹے بھرتے اپنے ہدف تک جائیں گے اور خزانے کا منہ بھر دیں گے۔ عقل عیار ہے سو بھیس بٹالیتی ہے۔ سوال یہ ہے کیا گاڑیوں نے ٹیکس وصول کرنا ہے۔نئی ہوں گی تو زیادہ کریں گی۔ یہ چھ ارب روپے تو ایف بی آر والے مہیا کر دیں گے مگر ان ایک ہزار دس گاڑیوں پر ہر ماہ پٹرول کتنا خرچ ہوگا۔ کوئی اس کا بھی تخمینہ لگائے۔ پہلے ہی ہزاروں گاڑیاں قوم کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے چل رہی ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں اتنی سرکاری گاڑیاں نہیں ہوں گی جتنی پاکستان میں سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ یہ گاڑیاں مہیا تو سرکاری امور کی انجام دہی کے لئے ہیں مگر یہ شام کو بیگمات کی شاپنگ کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں، ہر محکمے میں ٹرانسپورٹ کا ایک شعبہ ہوتا ہے۔ اس شعبے کو سونے کی کان سمجھا جاتا ہے کیونکہ پٹرول و ڈیزل کی مد میں کروڑوں روپے کی ہیرا پھیری ہوتی ہے، اس بہتی گنگا میں متعلقہ پٹرول پمپوں کے مالکان بھی ہاتھ دھوتے ہیں اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کا عملہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ اب اس دھندے میں ایک ہزار دس گاڑیاں مزید شامل ہو جائیں گی اور دلِ بے رحم کو لوٹ مار کے نئے مواقع میسرآ جائیں گے۔

حکمران سرکاری افسروں کو نوازنا چاہتے ہیں تو بے شک نوازیں مگر یہ رولا تو نہ کریں ملک کے حالات ٹھیک نہیں عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے۔ چلیں آپ ریلیف نہ دیں، جو تھوڑی بہت سہولتیں عوام کو حاصل ہیں، انہیں تو نہ چھینیں۔ پنشن کے بارے میں کہاجاتا ہے یہ ایک پردہ ہے جو بڑھاپے میں ریٹائرڈ ملازمین کی لاج رکھتا ہے۔ میرے کچھ دوست ریڈیو پاکستان کے ملازم رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں پنشن مل رہی تھی جیسے تیسے گزارا ہو رہا تھا مگر پھر اچانک فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر ان کی پنشن روک دی گئی۔ آج وہ سراپا احتجاج ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ معاملہ ترجیحات کا ہے۔ ایک طرف گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں اور دوسری طرف محکمے میں ہزاروں گاڑیوں کے باوجود افسروں کو نئی گاڑیاں دینے کے لئے اربوں روپے منظور کئے جا رہے ہیں۔ کارکردگی پھر بھی وہی رہتی ہے جو ہمیشہ رہی ہے۔ ایف بی آر اپنا ہدف پورا نہیں کر سکے گا۔ ٹیکس چوری کم نہیں ہو گی۔ نئی گاڑیوں کے باوجود اس کے افسر پوش علاقوں میں نہیں جائیں گے۔ صرف تنخواہ دار طبقے پر عذاب ڈھاتے رہیں گے۔ کالج میں ہمارے ایک استاد اقبال عباس نقوی بہت شگفتہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ کہتے تھے جب والدین اپنے بیٹے کی اصلاح اور تربیت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر آسان حل یہ ڈھونڈتے ہیں اس کی شادی کر دی جائے۔ یعنی وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کسی دوسرے گھرانے کی بچی کا بھی بیڑہ غرق کرنے کا سوچتے ہیں۔ وہ کہتے تھے تربیت صرف تربیت سے ہوتی ہے، کسی دوسری چیز سے ہم تربیت کا خلاء پورا نہیں کر سکتے۔ آج ان کی بات یاد آ رہی ہے۔ ایف بی آر کے عملے کی کرپشن اور نااہلی کا سدباب کرنے کی بجائے حل یہ نکالا گیا ہے انہیں نئی گاڑیوں پر بٹھا دو، شاید بدل جائیں۔ یعنی وہی والدین کی طرف سے شادی والا فارمولا۔ آج یہ بات زبانِ زد عام ہے۔ حکومت کو ٹیکس دینے کی بجائے ایف بی آر کے کسی اہلکار سے ڈیل کرلو۔ سستے میں کام ہو جائے گا۔ عوام اور ٹیکس محکمے کے عملے میں جو بے اعتمادی موجود ہے، وہ پاکستان میں ٹیکس کلچر پیدا نہیں ہونے دیتا۔ لوگ خوفزدہ رہتے ہیں ایک بار ٹیکس نیٹ میں آ گئے تو اہلکار روزانہ نئی نئی مدات نکال کر انہیں تنگ کریں گے۔ وہ ایسا راستہ ڈھونڈتے ہیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اگر یہی چھ ارب روپے ایف بی آر اپنے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے پر لگا دیتا اور دنیا میں ٹیکس کا جو فول پروف نظام موجود ہے،اسے پاکستان میں رائج کرنے کی کوشش کرتا تو ملک کو حقیقی معنوں میں فائدہ پہنچتا۔ کل میری امریکہ میں مقیم شاعرہ اور ایک بڑے ادارے میں آئی ٹی کنسلٹنٹ ناہید ورک سے فون پر بات ہوئی۔ انہوں نے کہا امریکہ میں سب سے ناممکن کام یہ ہے آپ خود کو ٹیکس دینے سے بچا لیں۔ سو فیصد ٹیکس نافذ ہوتا ہے اور سو فیصد ہی کلیکشن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ناہید ورک نے بتایا امریکہ میں کسی کو ٹیکس دفتر میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی نہ ہی کوئی محکمہ ٹیکس کا ملازم ذاتی طور پر ملنے آتا ہے۔ سب کچھ کمپیوٹرائزڈ ہے، یعنی محکمے کے اخراجات کچھ بھی نہیں اور آمدنی کھربوں ڈالر ہے،پھر کہنے لگیں پاکستان میں ایسا نظام کب آئے گا؟میں کیا جواب دیتا۔

ہم چھ ارب روپے کی گاڑیاں انہیں خرید کر دے رہے ہیں جن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے جو ایک طرف ٹیکس کے اہداف پورے نہیں کرتے تو دوسری طرف کھربوں روپے کی ٹیکس چوری پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ زمانہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے۔ ایک شناختی کارڈ نمبر پر کسی بھی شخص کا پورا ڈیٹا ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس کی دولت، اثاثے اور سرگرمیاں ایک کمپیوٹرکلک کے فاصلے پر ہوتی ہیں، اس طرف جانے کی بجائے ہم افسروں کو ایک ہزار دس گاڑیاں اس لئے دے رہے ہیں وہ شہر میں گھومیں اور دیکھیں کوئی کتنا کما رہا ہے، کیسے رہ رہا ہے۔

مزیدخبریں