"نارووال یونیورسٹی کا علمی و ادبی فیسٹیول "

جب سے کالجز کو یونیورسٹیز کا درجہ دیا جانے لگا ہے۔یونیورسٹیز کا تصور بالکل بدل گیا ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ خالص یونیورسٹی کا قیام ایک نعمت ہے جس کی مثال نارووال یونیورسٹی ہے۔جس کی بنیاد 2014 میں رکھی گئی تھی۔سیاسی و انتظامی عدم استحکام نے اس یونیورسٹی کی ترقی کی رفتار منظر عام پر دھندلائی رکھی۔لیکن یونیورسٹی کا سفر جاری رہا۔ جدید شعبہ اور مضامین جن میں سائنس، بزنس اینڈ اکنامکس، سوشل سائنسزکمپیوٹنگ اینڈ انفورمیشن ٹیکنالوجی، لینگوئجز اینڈ لِنگوئسٹکس کی موثر فعالیت کے لیے کچھ ذہین اور انٹلیکچوئیل دماغ نارووال یونیورسٹی کو علمی و ادبی منبع Hub بنانے میں مگن ہیں۔ اسی ضمن میں یونیورسٹی کی نئی بلڈنگ تعمیر کے آخری مراحل طے کر رہی ہے اور قریب قریب تمام شعبہ جات و انتظامی دفاتر بھی نئی وسیع و عریض عمارت میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ آف سٹوڈنٹ افیئرز یونیورسٹی آف نارووال سالانہ بنیاد پر طلبا و طالبات کی ذہنی تربیت کے لیے مختلف علمی و ثقافتی پروگرامز کا اہتمام کرتی ہے۔اس سال بھی ادبی و سائنسی میلہ تین دن پر محیط اپنے جلو میں بے شمار تفریحی و علمی بشاشت کے حامل پروگرام پیش کر رہا ہے۔ اس سال یہ پروگرام اس اعتبار سے بھی منفرد ہے۔کہ احسن اقبال نے یونیورسٹی آف نارووال میں نئے اکیڈمک بلاک الاندلس انوویشن سینٹرکی عمارت کا افتتاح کیا۔ اندلس کی طرز پر اکیڈمک بلاک کی بنیاد بھی احسن اقبال کا خواب تھا۔ اس ماڈل کو احسن اقبال نے اندلس کے اداروں کے ڈیزائن پر منتخب کیا تھا اور اس کا نام بھی احسن اقبال نے ہی تجویز کیا تھا۔ اس عمارت کی منظوری 2018 میں ہوئی تھی، لیکن انصافی، بے انصافی حکومت کے تاریک دور میں ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی۔ 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد کام شروع ہوا، اور اب یہ عمارت طلبہ کے لیے تیار ہے۔نارووال جیسے چھوٹے شہر میں نہ صرف یونیورسٹی بلکہ اندلس کی طرز پر یونیورسٹی کا نیا ورژن حیرت انگیز طور پر قابل ستائش ہے۔
محترم احسن اقبال کی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ نارووال میں میڈیکل یونیورسٹی بھی موجود ہے۔اور پرائیویٹ میڈیکل کالج بھی مثبت انداز تعلیم کے حوالے سے معروف ہے۔انھوں نے کہا کہ کوئی بھی قوم جلسوں اور احتجاج سے نہیں۔سائنسی و فکری مغالطوں کی قید سے آزار رہ کر ہی اڑان بھر سکتی ہے۔اعلیٰ علمی تہذیب و ثقافت کا پروان ہی قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن رکھ سکتا ہے۔ غلغلوں سے پر فریب اس دور میں علم و فکر کا راست انداز میں فروغ ہی واحد امید ہے۔میریٹوریس پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس رانا وائس چانسلر نے مختصر وقت میں نہایت تیز رفتار کام کیا ہے۔پاکستان میں واحد میریٹوریس پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس رانا نے واضح کیا کہ نارووال ان کا اپنا شہر ہے اس لیے اس ضلع کے تمام طلبہ و طالبات کو خوشگوار تعلیمی ماحول کی فراہمی ان کی اولین ترجیح ہے جس کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ڈسپلن اور طلبہ و طالبات کی سیکورٹی کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ڈاکٹر حسیب سرور رجسٹرار یونیورسٹی آف نارووال کا یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کو بہتر بنانے میں بہت حصہ ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے تمام ادبی،علمی و ثقافتی پروگرامز کے ہر مرحلے کو کامیاب بنانے میں ہر سطح پر صرف ایک شخصیت کا نام سنا گیا۔ڈاکٹر بابر زیدی کا دماغ نت نئی اختراعات کا مرکز ہے اور انتظامی صلاحیتیں بے مثال۔ہر فورم پر متحرک بابر زیدی ہر سال نئے انداز سے اس پروگرام کو ڈیزائن کر کے اس کی پیش کش کو موثر ترین بناتے ہیں۔ جہاں بہت سی یونیورسٹیز میں ایک دن کا سیمینار اپنے انتظامی امور میں الجھا دیتا ہے۔ وہاں ڈاکٹر بابر زیدی اس میں نت نئے ڈیزائن تخلیق کر کے دوسروں کے لیے مثال بنا دیتے ہیں۔ بیک وقت مختلف پروگرامز کا انعقاد اور ان کی کامیابی۔کم وسائل میں ایسے شاندار پروگرام کسی بڑی یونیورسٹی میں اس شخص کی صلاحیتوں کو کیا جلا دے سکتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں۔ سب سے قابل توجہ طلب معاملات یہ ہیں کہ بے شمار اساتذہ پر بیک وقت چار چار ایڈیشنل ذمہ داریاں ہیں، جس کا انھیں کوئی معاوضہ تک نہیں دیا جاتا۔عام طور پر دہری،تہری ذمہ داری نبھانے کا صلہ ملنا مشکل نہیں ہوتا۔ہو سکتا ہے یہ بھی کسی کی بد طینتی کا ہی نتیجہ ہو۔مشاعرہ اس پروگرام کا خوب صورت پہلو تھا۔جس کی سب سے مثبت بات اور طلبہ کی تربیت کی خصوصی دلچسپی یہ تھی کہ آخر تک ایک بھی طالب علم نے جگہ نہیں چھوڑی۔ڈاکٹر فخر الحق نوری جیسی علمیت سے معمور شخصیت کی معیت میں سفر ایک نعمت تھا۔جناب عباس تابش نے کرسی صدارت استاذ الاساتذہ ڈاکٹر فخر الحق نوری کے لیے خالی چھوڑ دی۔یادداشت کے لیے کچھ نمونہ اشعار اک تکلم کا تعلق توڑنے سے کیا ہوگا۔
اور بھی کچھ رابطے تھے تیرے میرے درمیاں
تیرے دل کا مان ٹوٹے،میں نے کب چاہا مگر
اور بھی کچھ دل پڑے تھے تیرے میرے درمیاں
(ڈاکٹر فخرالحق نوری)
ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے
اپنے شجرے کی وہ تصدیق کرائے جا کر
جس کو زنجیر پہنتے ہوئے ڈر لگتا ہے
(عباس تابش)
طاقِ نسیاں سے اْتر، یاد کے دالان میں آ
بْھولے بسرے ھْوئے اے شخص! میرے دھیان میں آ
عین مْمکن ھے، کہ ہو جائے جو نامْمکن ہے
تْو کسی روز, میرے حلقہ امکان میں آ
(رحمان فارس)
آج تم جس کی رفاقت پہ بہت نازاں ہو
کل یہی شخص مرا سایہ بنا پھرتا تھا
(محمود کاوش)
ذہین عورت کی ہر نشانی جو مجھ میں دیکھی، مکر گیا وہ
تھا ہار جانے کا خوف اتنا کہ میری نظروں میں مر گیا وہ
وہ چاند ہاتھوں میں لے کے بولا کہو تو تم پہ نثار کر دوں
مری ہنسی میں جنون ابھرا گمان غالب ہے ڈر گیا وہ
(سعدیہ بشیر)
نارووال یونیورسٹی کے انتظامی امور پرڈاکٹر بابر زیدی سمیت تمام ٹیم کو مبارک باد