دہشت گردی دوبارہ سر اْٹھا رہی جسے کْچلنے کیلئے ایک پیج پر آنا ہوگا،وزیرِ اعظم

وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ "کہ دہشت گردی دوبارہ سر اْٹھا رہی ہے جسے کْچلنے کے لیے ایک پیج پر آنا ہوگا "لیکن فی الحال یہ نا ممکن ہے کیونکہ ہم پی ٹی آئی والوں کا سر کْچلنے میں ہی اِس قدر مصروف ہیں کہ اور کوئی کام کر ہی نہیں سکتے اور یہ بھی ایک طرح سے دہشت گرد ی کا خاتمہ کرنا ہی ہے کیونکہ پی ٹی آئی والے خود پرلے درجے کے دہشت گرد واقع ہوئے ہیں اور اْن کے لیڈر کو ہم صرف جیل میں ہی ڈال سکے ہیں اور باقی ساری اْمید یں فوجی عدالت سے لگا رکھی ہیں کہ دیکھیں وہ کس وقت حب الوطنی کے تقاضے پر عمل کرتے ہیں اور اْسے چالیس پچاس سال کی سزا سنا کر دہشت گردی کے ایک بنیادی عنصر سے ہمیں چھٹکارا بہم پہنچاتی ہے جبکہ اس کے علاوہ اِن کے دوسرے لیڈر اور کار کْن بھی جیل میں ڈال رکھے ہیں لیکن اِس سے بھی دہشت گردی کم نہیں ہوئی بلکہ اِس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے ہماری پریشانیوں می بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری اسی مصروفیت کی وجہ سے دوسرے دہشت گرد بھی مزید کاروائیاں کرنے کے قابل ہو گئے ہیں آپ اگلے روز ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
تشدد،نفرت کی سیاست ملکی ترقی میں
رکاوٹ ہے،احسن اقبال
وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ "تشدد،نفرت کی سیاست ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے"مثلا تشدد جو پی ٹی آئی کے راہنماؤں اور کار کنوں پر روا رکھا جا رہا ہے او ر نفرت جو اْسکی لیڈر شپ کے خلاف روا رکھی جا رہی ہے اگرچہ ملکی ترقی کے سراسر خلاف ہے لیکن اِس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے جبکہ ویسے بھی ملک خود بھی ترقی نہیں چاہتا کیونکہ اْسے ترقی کی عادت ہی نہیں ہے اور وہ اپنے حال ہی میں مست ہے بلکہ جو کچھ ملک کے ساتھ ہو رہا ہے اسی میں سے ترقی کا سورج بھی طلوع ہو گا کہ سونا آگ میں پگھل کر ہی اپنی اصلی حالت کو پہنچتا ہے،اِس کے علاوہ اگر ہم ترقی کے چکر میں پڑے رہیں تو سیاست کہاں سے ہو گی اور ہمارا جواز ہی کیا ہوگا اور اِس کا صاف مطلب یہی ہے کہ سیاست نہ کریں تو گھر بیٹھ جائیں اور اتنے پاپڑ بیل کر حاصل کی گئی حکومت کی قربانی دے دیں اگرچہ پہلے بھی ہم ایک طرح سے قربانی ہی دے رہے ہیں جبکہ ملکی ترقی تو ویسے بھی آنی جانی چیز ہے اور اپنے وقت پر آبھی جاتی ہے جبکہ وقت ایک ایسی چیز ہے کہ سراسر ہمارے اختیار میں نہیں ہے اِس لیے جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہی ہمارے نزدیک عدم تشدد او ر محبت ہے، لینا ایک نہ دینا دو آپ اگلے روز نارووال میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ن لیگ کے دور میں کسان خوشحال
ہوتا ہے،مریم نواز
وزیر ِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ "کسان ن لیگ کے دور میں خوشحال ہوتا ہے "اور حالیہ دور میں خاص کر،جبکہ حکومت نے گندم نہیں خریدی جس کے نتیجے میں گندم کسانوں کے گھروں میں ہی رہ گئی اور وہ پیٹ بھر کر روٹی کھا رہے ہیں اور اْن کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔اِ س کے علاوہ زرعی ٹیکس لگنے سے بھی اِن کے اندر خوشحالی آئی ہے اور وہ امیرِ کبیر ہو گئے ہیں اور یہ اْنہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر بار اقتدار میں آجاتے ہیں لیکن اِس بار اْن کی دعاؤں میں شاید کچھ کمی رہ گئی تھی اسی لیے ہمیں فارم سینتالیس کا سہارا لینا پڑا جس کا مطلب یہ بھی ہْوا کہ یہ لوگ کافی ہڈ حرام واقع ہوئے ہیں اور خوشحالی نے اِن پر اْلٹا ہی اثر کیا ہے اور شاید اْنہوں نے دعاؤں کی جگہ بد دعائیں دینا شروع کر دی ہے جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ منحوس ہی اتنے ہیں کہ اِن کی بد دعائیں دعاؤں سے بھی جلدی او ر زیادہ منظور ہو تی ہیں اور جس کا تقاضا یہ ہے کہ زرعی ٹیکس لگانے کے علاوہ اِن کا کوئی اور بندو بست بھی کرنا پڑے گا جبکہ نحوست اِن کی گھْٹی میں پڑی ہوئی ہے جس سے ہم بہت تنگ اور پریشان ہیں اور اِس پریشانی کو دْور کرنا اب ہماری ضرورت اور اوّلیں فریضہ بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سولرائیز زیشن برائے زرعی ٹیوب ویلز کے موضوع پر گفتگو کر رہی تھیں۔
پھر بھی
پولیس نے ایک لڑکے کو چوری کے الزام میں عدالت میں جب تیسری بار پیش کیا تو اْس کا باپ بھی اْس کے ہمراہ تھا۔مجسٹریٹ سے پوچھا،"یہ کون ہے؟"جس پر تھانے دار نے کہا کہ یہ اْس کا باپ ہے تو مجسٹریٹ بولا"تم اپنے بیٹے کو سمجھاتے کیوں نہیں "جس پر باپ بولا "جناب میں تو اسے بہت سمجھاتا ہوں لیکن یہ کمبخت پھر بھی پکڑ ا جاتا ہے "
اور اب آخر میں لندن سے ایم سعید تبسم کی رباعیات
مانا کہ ہر اک مکان بھی ہوتا ہے
اِمکان لا مکان بھی ہوتا ہے
لیکن رہے یاد آدمی دنیامیں
ہمت نہ ہو تو بے نشان بھی ہوتا ہے
تجھ سے بھی مجھے یونہی قریں ہونا ہے
خود سے بھی کنارہ کش نہیں ہونا ہے
یہ رنگ مجھے بہت حسیں لگتا ہے
اِس رنگ کو اور بھی حسیں ہونا ہے
آؤ کریں زندہ سب مثالوں کو ہم
آباد کریں تباہ حالوں کو ہم
آسانی کریں جہان میں پیدا اور
آسانیاں دیں جہان والوں کو ہم
کترا کے جو دور جا رہے تھے خود سے
دامن کو بچا بچا رہے تھے خود سے
دنیا تھی بھلا کب اِس طرح کی یارو
ہم خود ہی نظر چْرا رہے تھے خود سے
جب تازہ ہوا خراب ہو جاتی ہے
ہر سانس بہت عذاب ہو جاتی ہے
تیری ہی تصورِ جمال آراء سے
سب آب و ہوا گلاب ہو جاتی ہے
آج کا مقطع
شعر پھیکا ہی رہا، اِس پہ ظفر
دل کا لیموں بھی نچوڑا میں نے