ریل کی پٹری کے آس پاس علیٰحدہ ہی قیامت مچی رہتی، مویشی اس دیو ہیکل، شور مچانے والی شے کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے اور ادھر اْدھر بھاگے پھرتے

ریل کی پٹری کے آس پاس علیٰحدہ ہی قیامت مچی رہتی، مویشی اس دیو ہیکل، شور مچانے ...
ریل کی پٹری کے آس پاس علیٰحدہ ہی قیامت مچی رہتی، مویشی اس دیو ہیکل، شور مچانے والی شے کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے اور ادھر اْدھر بھاگے پھرتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:9
اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا مضبوط قسم کی فولادی پٹریاں بچھائی گئیں جن کو آپس میں قائم اور ایک دوسرے سے یکساں فاصلہ رکھنے کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پرلکڑی کے بھاری بھرکم شہتیر استعمال کیے گئے، جنھیں بعد ازاں سلیپروں کانام دیا گیا۔ جہاں پٹری کا ایک فولادی گارڈرختم ہوجاتا، تو اْس کو نٹ بولٹ سے جوڑ کر آگے نیا گارڈر لگا دیا جاتا۔ پہلو بہ پہلو چلتی ہوئی دوسری پٹری کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا تھا۔ یوں ریل کی یہ دونوں پٹریاں متوازی دوڑتی رہتی تھیں البتہ دورانِ سفر روٹھے ہوئے دوستوں کی طرح ملتی کبھی بھی نہیں تھیں  اور ان کا آپس میں فاصلہ بھی ہمیشہ یکساں ہی رہتا تھا۔ 
بہرحال یہ تجربہ کامیاب رہا اور یوں ایک ایسی ریل گاڑی وجود میں آئی جو کم فاصلے تک تماشائیوں کو لے کر جاتی تھی۔ ابھی تک یہ گاڑی تفریح کی حد تک ہی محدود تھی اور سوچا جا رہا تھا کہ اس کو تجارتی مقاصد کے لیے یعنی ایک شہر سے دوسرے شہر تک مسافروں اور سامان کولے جانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
اسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئی جارج سٹیفنسن نے اپنی ایک باقاعدہ ریل کمپنی بنائی اور 1825ء میں برطانیہ کے2شہروں سٹاکٹن اور ڈارلنگٹن کے درمیان 25 میل (40کلومیٹر) لمبی پٹری بچھائی، کچھ سٹیشن اور دوسری عمارتیں تعمیر کروائیں۔ اس کے مکمل ہوتے ہی انجن کی سیٹی بجی اورخراماں خراماں ایک ریل گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی اور پھرچلتی ہی گئی۔لمحے بھر کوبھی نہ رکی۔ گویا مواصلات کی دْنیا میں اب وہ انقلاب برپا ہو گیا تھا جس کا صدیوں سے انتظار تھا۔
اس وقت اس ریل گاڑی کی رفتارمحض آٹھ دس میل فی گھنٹہ ہوتی تھی یعنی زیادہ سے زیادہ کوئی 16 کلومیٹر فی گھنٹہ۔بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ پٹری کے ساتھ والی سڑک پر جاتا ہوا کوئی سائیکل یا گھڑسوار انجن ڈرائیور کو سیٹی بجا کر چھیڑتا اور پھرآنکھ مارکراْسے ریس کی دعوت دیتا ہوا آگے نکل جاتا۔ ڈرائیورمسکرا کر رہ جاتا، وہ بیچارہ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا کیوں کہ وہ انجن کی دسترس کے مطابق ہی زور لگا سکتا تھا- جذباتی ہو کر اگر وہ اس سے زیادہ طاقت اس میں جھونک دیتا تو کچھ بعید نہ تھا کہ ایک دھماکے سے اس کا بوائلر پھٹ جاتا اور ہر سو بڑی تباہی پھیل جاتی اس لیے وہ جی ہی جی میں کْڑھتا رہتا تھا لیکن انجن کی رفتار نہ بڑھاتا تھا۔
یہ بھی ہوتا تھا کہ اس نام نہاد ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کچھ شوخ لونڈے لپاڑے چلتی گاڑی سے چھلانگ مار کر نیچے اتر آتے کچھ رنگ بازی کرتے،اچھل کود کرکے ہاتھ پیر سیدھے کرتے اور پھراسی گاڑی کے پیچھے دوڑ تے ہوئے پچھلے ڈبے پرجا چڑھتے تھے۔
ریل کی پٹری کے آس پاس قا ئم زرعی اور مویشیوں کے فارموں میں ایک علیٰحدہ ہی قیامت مچی رہتی تھی۔ وہاں کھیتوں میں چرنے والے مویشی اس دیو ہیکل، کالی کلوٹی اور شور مچانے والی شے کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے اور پناہ کی تلاش میں ادھر اْدھر بھاگے پھرتے۔اکثر تو جان بچانے کی خاطروہاں سے کھسک جانے میں ہی عافیت جانتے مگر کچھ بیوقوف اور متجسس مویشی اس بلا کو قریب سے دیکھنے کے اتنے مشتاق ہوتے کہ انجن کی راہ گزر پر آن کھڑے ہو تے، ڈرائیورانجن کی سیٹیاں بجا بجا کر ہلکان ہوجاتا، لیکن وہ پٹری سے ٹلنے کا نام ہی نہ لیتے، حتیٰ کہ گاڑی کے وہاں پہنچنے پر اْن جانوروں کا تجسس ختم ہوجاتا اور اکثر اوقات وہ خود بھی۔
جب اس قسم کے حادثات بڑھنے لگے تو انجن کی پیشانی پر ایک ایسا فولادی آنکڑہ نصب کر دیا گیاجو یوں سامنے آ جانے والے اس طرح کے نامعقول جانوروں کو اٹھا کر پٹری سے دور پھینک دیا کرتا تھا۔ مویشی کی جان تو بچ جاتی تھی لیکن وہ اس چکر میں اپنی کئی ہڈیاں تڑوا بیٹھتا تھا۔ بعد میں یہ مالک کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ اْس کا علاج کروائے یا دوستوں کے ساتھ مل کر سر شام ایک سٹیک پارٹی اْڑائے۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -