ایٹمی ایران :مشرق وسطیٰ میں امن کی ضمانت
عرصے سے مغربی دنیا اوراسرائیل ، ایران کے ایٹمی قوت بن جانے کے خوف میں مبتلا ہے۔کبھی اسرائیل حملے کی دھمکی دیتا ہے اور کبھی امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔یورپین یونین بھی پیچھے نہیں رہی۔ ایران کے ساتھ کبھی ظاہر ،کبھی پردے کے پیچھے مذاکرات بھی چلتے رہتے ہیں....
دراصل یہ خوف نہ امریکہ کو ہے اور نہ ہی یورپین ممالک کو۔یہ خوف یا خطرہ صرف اسرائیل کو ہے کہ ایسی صورت حال میں اس کی بالادستی خطرے میں پڑ جائے گی اور مشرق وسطیٰ سے اُس کی چودھراہٹ یا بدمعاشی ممکن نہیں رہے گی ،اِسی لئے یہ خیال زور پکڑتا جا رہا ہے اور اِسے اور تقویت دینی چاہیے کہ ایٹمی ایران مشرق وسطیٰ میں امن کی ضمانت ہو گا۔عرب دُنیا کو بھی اِس کا احساس کرنا چاہیے اور اصل خطرے سے آنکھیںبند کرتے ہوئے امریکہ کی اندھادُھند تقلید سے گریز کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں مغربی دُنیا کے ساتھ ساتھ ایران کے معاملات تین طریقوں سے طے ہوسکتے ہیں ۔مذاکرات بھی ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایران کے خلاف عائد پابندیاں بھی سخت سے سخت تر اور سخت ترین ہوتی جائیں،لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ طریقہ اب تک تو کامیاب نہیں ہو سکا، جب بھی کسی ملک نے تہیہ کر لیا کہ اُس نے ایٹمی طاقت بننا ہے ،اُس کو روکا نہیں جاسکا۔شمالی کوریاکی مثال ہمارے سامنے ہے، نہ پابندیاں اور نہ ہی سلامتی کونسل کی قرار دادیں ،اسے ایٹمی قوت بننے سے باز رکھ سکیں ۔اِسی طرح اگر ایران نے ٹھان لی ہے کہ اُس کی سلامتی اِسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے ،اگر وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے تو پابندیاں اُسے روک نہیں سکیں گی۔
دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ایران کو اِس بات پر آمادہ کر لیا جائے کہ وہ ایٹمی قوت بن جانے کی صلاحیت تو حاصل کر لے، لیکن تجربہ کرنے سے گریز کرے ۔بے شک اُس کی صلاحیت اتنی بڑھ جائے کہ short Noticeپر دھماکہ کرنے کے قابل ہو۔ ایران ایسا کرنے پر آمادہ ہو جائے تو وہ پہلا ملک نہیں ہو گا۔ جاپان بھی ایک اندازے کے مطابق ایک بڑا ذخیرہ رکھتے ہوئے بھی دھماکہ کرنے سے گریز کررہا ہے۔ فرض کر لیں کہ ایران اگر اس پر آمادہ بھی ہو جائے اور مغربی ممالک بھی شاید یہ صورت حال قبول کر لیں.... لیکن یہ اسرائیل کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو گا اور وہ اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ پر دباو¿بڑھائے گا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق ماہرین کا قتل،ایران کے اندر دہشت گردی کی کارروائےاں بھی اسی حکمت عملی کا حصّہ ہیں۔ جیسے جیسے اسرائیل کی طرف سے ایسی کوششوں میں اضافہ ہو گا، ویسے ویسے ایران کا یقین پختہ ہو تا جائے گا کہ اُس کی سلامتی ایٹمی قوت بن جانے میں ہی مضمر ہے اور ایٹمی ہتھیار ہی اُس کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا سکتے ہیں۔
تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کسی پابندی اور دھمکی کو خا طر میں لائے بغیر اپنی کوشش جاری رکھے۔ ایٹم بم بنائے اور اُس کادھماکہ بھی کرے ۔امریکہ،اسرائیل اور مغربی ممالک کہتے رہیں گے کہ وہ یہ نہیں ہونے دیں گے، لیکن ایسے معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے، جب بھی کسی ملک نے ایٹمی قوت بننے کا اِرادہ ظاہر کیا ہے، مغربی ممالک کی طرف سے ایسے بیانات جاری ہوتے ہیں کہ یہ دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن جائے گا،اسے ایک نفسیاتی مسئلہ بھی سمجھ لیں ،وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی اور ان کے ساتھ کندھا ملا کر برابری پر کھڑا ہو جائے، لیکن جب کوئی ملک یہ صلاحیت حاصل کر لیتا ہے تو اُس صورتِ حال کو بھی قبول کر لیتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ کسی ملک کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد اس خطّے میں کشیدگی کم ہوئی ہے، کیونکہ طاقت کا توازن ہی مستحکم امن کی ضمانت دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل کی عسکری بالادستی نے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار بنایاہواہے۔دنیا کے کسی اور خطّے میں اس طرح ایک ملک کی ایٹمی اجارہ داری نہیں ہے ، اِس مسئلے پر کشیدگی کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے، ایران پر نہیں.... لیکن یہ کچھ عجیب سالگتا ہے کہ اتنا عرصہ کسی نے اُس کی ایٹمی اجارہ داری کو چیلنج نہیں کیا ۔شاید عربوں کا ”حال مست ہونا“اِس کی وجہ ہے۔ اِس سے پہلے 1981ءمیں عراقی تنصیبات پر حملہ اور شام کے خلاف اسی طرح کی کارروائی2007ءمیں کی گئی ،لیکن ایران کے خلاف اس قسم کی کارروائی بہت مشکل ،بہت مہنگی اور بہت سنگین حالات پیدا کرنے کی وجہ بن جائے گی۔ مشرق وسطیٰ میں مستحکم امن اِسی صورت میں قائم ہوگا اور اِس خطے میں طاقت کا توازن اِس کی وجہ بنے گا، جب ایران بھی ایٹمی قوت بن جائے گا اور دنیا اُسے تسلیم کرلے گی۔
ایران کے خلاف یہ پراپیگنڈہ بھی بے بنیاد اور عرب ہمسایوں کو خوفزدہ رکھنے اور ان کے ہاتھ اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے لئے ہے کہ ایرانی قیادت”غیر ذمہ دار“ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب تک اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران کی قیادت نے ،جو بنیادی طور پر مذہبی رہنماﺅں پر مشتمل ہے،بڑی سنجیدگی ، سفارتی مہارت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔داخلی سیاست میں عوام کے سامنے جوشیلی تقریریں، ان کے حوصلے بلند رکھنے اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت میں رائے عامہ ہموار رکھنے کے لئے کی جاتی ہیں اور ایسا ہر ملک کی قیادت کرتی ہے، کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر امریکہ ، اسرائیل اور ان کی ہمنوا مغربی دنیا واقعی ایرانی قیادت کو ”غیر ذمہ دار“ سمجھتی ہے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ثابت ہوگی۔احمقانہ طرز فکر ہے کہ اگر ایران ایٹم بم بنا لے گا تو وہ اسرائیل پر ”پہلا حملہ“ کردے گا۔کیا ایران کے پالیسی سازوں کو علم نہیں کہ ردعمل میں جو ہوگا کیا ،وہ ایران برداشت کر سکے گایا پسند کرے گا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو جائے؟ ایران اگر ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کا حق بھی ہے ،تو یقینا وہ اپنے دفاع کو مستحکم اور یقینی بنانے کے لئے ہے نہ کہ جارحانہ عزائم کے لئے....(جس کا نتیجہ خود اس کی اپنی بربادی ہوگا) ۔جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ یہ کہنے کے باوجود کہ اگر مزید پابندیاں عائد کردی گئیں تو وہ آبنائے ہرمز۔(سعودی عرب اور امارات سے تیل کی واحد گزر گاہ) ۔بند کردے گا،کوئی ایسی کوشش نہیں کی گئی ، کیونکہ اس سے جو بحران پیدا ہوتا اور عالمی ردعمل ظاہر کیا جاتا، ایران کو اس کا اندازہ تھا.... یہ سب ایرانی قیادت کی سمجھ داری، دوراندیشی اور ذمہ داری کا ثبوت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
ایک اور گھساپٹا الزام یہ عائد کہا جاتا ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو وہ یہ صلاحیت دہشت گردوں کے حوالے کردے گا۔ہم بھی اس دور سے گزرے ہیں، بلکہ گزررہے ہیں، گو الزام کی نوعیت بدل گئی ہے۔ 1945ءسے اب تک جب سے ” ایٹمی قوت“ ظاہر ہوئی ہے، ایسا نہیں ہوا۔ہر ملک کو یہ احساس ہے کہ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد بڑی طاقتوں کی نظر میں کھٹکنے لگ جاتا ہے۔اس کے رویے میں ذمہ داری آجاتی ہے اور وہ کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوتا۔1964ءمیں چین،پھر بھارت اور پاکستان اس کی مثال ہیں۔پھر آج کے دور میں جب امریکہ کے پاس نگرانی کے لئے بے پناہ صلاحیت ہے۔کسی بھی قسم کی نقل و حرکت ان سے چھپی نہیں رہ سکتی۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ صلاحیت حاصل کرنا نہ آسان ہے اور نہ ہی سستا کہ اسے ریوڑیوں کی طرح بانٹنا شروع کردیا جائے اور خاص طور پر وہ گروہ ،جو کسی کے بھی اختیار میں نہیں ہوتے، اس کا تجربہ بھی ہمیں ہے۔ایران کے معاملے پر ایک اور فضول قسم کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایران کے ایٹمی قوت بن جانے کی صورت میں اس خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجائے گی،جو کہ Proliferationکو جنم دے گا۔اس لفظ کے معنی ہیں ،”بے تحاشا اور بہت تیز پھیلاﺅ “.... ایٹمی دور اب 70سال سے بھی پرانا ہوگیا ہے، اب تک اس قسم کا ”بے تحاشا اور بہت تیز پھیلاﺅ“دیکھنے میں نہیں آیا، بلکہ سننے میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔اسرائیل نے یہ صلاحیت غالباً 1960ءمیں حاصل کرلی تھی۔اگر ایسی صورت حال میں ،جبکہ عرب ہمسایوں سے تعلقات بھی ”زیادہ ہی خوشگوار ہیں“ یہ دوڑ اب تک شروع نہیں ہوئی تو ایران کے ایٹمی قوت بن جانے سے یہ دوڑ کیسے شروع ہو جائے گی؟۔
جتنے بھی خطرات اور خدشات ظاہرکئے جارہے ہیں، ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بالادستی اور بدمعاشی قائم رہے اور اس کے لئے کوئی چیلنج نہ ہو،جبکہ عالمی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کا توازن ہی امن کی ضمانت ہے۔1991ءمیں بھارت او رپاکستان نے معاہدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ایسی صورت حال میں جو تباہی آتی، وہ دونوں ممالک کے لئے ہوتی۔جو علاقے Directنشانہ نہیں بنتے، وہ بھی اس کے اثرات سے دہائیوں متاثر رہتے ہیں، اس لئے ہوگا یہ کہ جیسے پاکستان اور بھارت نے ان خطرات کو بھانپ لیا اوریہ معاہدہ کیا ہے۔ایران کے ایٹمی قوت بن جانے کی صورت میں اسرائیل اور ایران کے درمیان بھی اس قسم کا معاہدہ ہو جائے گا اور سارا مشرق وسطیٰ سکھ کا سانس لے گا۔اس لئے امریکہ اور مغربی اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ خوامخواہ کی سردردی ،جو انہو ں نے اسرائیل کے پیار میں مول لے لی ہے،اس سے جان چھڑائیں۔ مذاکرات کا عمل جاری رکھیں، کیونکہ یہ مسلسل رابطہ ہی مغربی دنیا کے ایران کے بارے میں بلاجواز خدشات کو ختم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔پابندیاں بڑھانے کی بجائے نرم کی جائیں، تاکہ اعتماد کی فضا پیدا ہو سکے اور ایک دوسرے کا نقطہ ءنظر سمجھنے میں آسانی ہو۔یہ بہت ضروری ہے کہ عرب دنیا، یورپ، اسرائیل اور امریکہ پالیسی ساز اس حقیقت کا احساس اور ادراک کریں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جس خطے میں متوازن ایٹمی طاقت موجود ہے، اس کے ساتھ مستحکم امن بھی موجود ہے۔ ٭