چینی سرمایہ کاری اور معاشی اہداف!
6.54 ٹریلین ڈالر کا معاشی حجم، 6.5 فیصد سالانہ شرح ترقی اور 130 ارب آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی افرادی قوت کے حامل عوامی جمہوریہ چین کو عالمی اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے ہمسائے اور ہمدم دیرینہ پاکستان کے ساتھ تجارتی اور سٹریٹیجک تعلقات میں بڑھوتری کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2008ءسے 2013ءکے دوران پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور تجارتی نوعیت کے بہت سے معاہدے طے پائے۔ نومبر2012ءمیں چین میں قیادت کی تبدیلی کے بعد جون 2013ءمیں پاکستان میں بھی انتقالِ اقتدار کا مرحلہ مکمل ہوا۔مئی2013ءکے انتخابات کے بعد چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر اور نامزد وزیراعظم نواز شریف نے ان سے ملاقات کی جس میں چینی وزیراعظم کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ اپنے ہم منصب کے ساتھ مل کر مستقبل میں دونوں ممالک کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے کام کریں گے۔ اس لئے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے چین ہی کا انتخاب کیا۔ حالیہ دورہ چین کے دوران وزیراعظم کے دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے مشہور ضرب المثل کا حوالہ دیتے ہوئے پاک چین تعلقات کو ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہرا اور شہد سے شیریں قرار دیا، لیکن کیا کوئی سے دو ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت رومانیت کی اس سطح تک پہنچ سکتی ہے؟
سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ تیزی سے تبدیل ہوئی اس دنیا میں جسے ہم اب گلوبل ویلیج کے نام سے موسوم کرتے ہیں، کوئی مستقل دوست ہے نہ کوئی مستقل دشمن، دوستی اور دشمنی میں ہمیشگی افراد کی سطح پر تو قابل قبول ہے۔ اقوام کی سطح پر نہیں۔ ممالک کے درمیان صرف مفادات کی اہمیت ہے اور بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات ممالک کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے رہیں۔ چین اگرچہ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، لیکن اسے دنیا کے سب سے گنجان آباد معاشرے کی پرورش کا چیلنج درپیش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود اس کے شہریوں کا معیار زندگی امریکہ و یورپ کے برابر نہیں ہو پایا اور چین کی فی کس اوسط آمدن اب بھی6811 ڈالر سالانہ ہے جو امریکہ کی فی کس اوسط آمدن49147 ڈالر سالانہ کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ اس لئے چین کی خواہش ہے کہ گوادرک کی بندرگاہ کو اپنے جارتی مقاصد کے لئے استعمال کر کے وہ اپنی معیشت کے استحکام کو یقینی بنائے۔ دوسری جانب امریکہ اس بات سے خائف دکھائی دیتا ہے کہ چین گوادر کی بندرگاہ کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ گزشتہ حکومت پر امریکہ نے بھرپور دباو¿ ڈالا کہ وہ گوادر کی بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے سے باز رہے، لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے کم از کم یہ فیصلہ تو قومی مفاد میں کیا۔ جس کا اسے کریڈٹ دیا جانا چاہئے۔ گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے اور وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے گوادر سے گلگت تک ریلوے ٹریک بچھائے جانے کے منصوبے کا اعلان ہوتے ہی دیا میر میں غیر ملکی کوہ پیماو¿ں کے قتل اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی خونریزی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات اور ان کی بدولت جنم لینے والے ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے خفیہ ہاتھ سرگرم ہو چکے ہیں۔
پاکستان کو بیرونی سرمایہ کی اس وقت جتنی اشد ضرورت ہے شاہد ماضی میں بھی نہ رہی ہو۔ ملک کی40 فیصد آبادی غریب کی لکیر سے نیچے لڑھک چکی ہے۔ بے پناہ افراطِ زر کی بدولت مہنگائی، بے روزگاری اور روپے کی قدر میں مسلسل ہونے والی کمی نے معیشت کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہونے والے مسلسل اضافے کی بدولت غیر ملکی قرضوں کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔2005ءکے بعد سے مسلسل دہشت گردی کا شکار ہنے والے ملک کا بجٹ خسارہ1651 ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ جس میں کمی نو منتخب حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے۔
حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ محصولات بڑھانے کے لئے عوام الناس پر مزید ٹیکس عائد کرے۔ جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں میں اضافے کے علاوہ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھا کر محصولات میں اضافے کی کوشش کی جا رہی ہیں ، لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود معاشی اہداف کا حصول آسان دکھائی نہیں دیتا۔ بجٹ خسارہ کرنے کے علاوہ غربت اور بے روزگاری کی شرح میں کمی کے لئے حکومت کو فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس کے لئے چین کا تعاون ازحد ضروری ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت نے سابقہ دور میں شروع کئے گئے بے نظیر انکم سپورٹ کے لئے فنڈز میں اضافہ کر کے اسے75 ارب روپے تک بڑھا دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ایسے منصوبے (جس میں فی خاندان ایک ہزار روپے ماہوار امداد دی جاتی ہے) غربت کے خاتمے میں معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔ چین کی جانب سے اس بات کی پیشکش کی گئی ہے کہ وہ غیر ہنر مند پاکستانیوں کو فنی تعلیم دینے کے لئے اپنے ماہرین بھجوا سکتا ہے۔ اگر ملک میں قائم فنی تعلیم کے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کر کے نوجوانوں کو ووکیشنل تربیت دی جائے تو غربت اور بے روزگاری کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ مالی سال2013-14ءکے لئے مقرر کئے گئے اہداف کا حصول بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ جب ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں، چین کی مختلف کمپنیوں نے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا عندیہ بھی دیا ہے تو ملک میں جاری بجلی کے بحران سے قوم کو نجات دلوانے کا موجب ن سکتا ہے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ چینی سرمایہ کاروں کو عوام کے بہترین مفاد میں استعمال کر کے ان کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ ٭