حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف خودمجددتھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے صحبت یافتہ کئی افراد کو تجدید و احیائے دین کے شرف سے نوازا ۔
والد ماجد کا نام ’’عبدالحق‘‘ تھا، آپ قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ،صاحب نقد و جائیدا دتھے۔حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخْدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں آپ کا وطن مالوف قصبہ تھانہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے،
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔
آپ کو بچپن ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف بارہ، تیرہ برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اْٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔
19 یا 20 سال کی عمر میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوگئے۔ آپکی دستار بندی حضرت اقدس قطب العالم حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدس ہاتھوں سے 1300ھجری میں ہوئی۔
آپ کے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قرأت کی مشق شہرہ آفاق قاری، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315ھ تقریبا14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھانہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔
قیام کان پور کے زمانہ میں سینکڑوں طلبہ نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے، جن میں مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفی صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ،حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی قابل ذکر ہیں۔
اللہ تعالی نے حضرتؒ کے باطنی علوم و اعمال کی تکمیل و تہذیب کے لیے ایک یگانہ عصر ،شیخ المشائخ حضرت حاجی شاہ امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ العزیز سے شرف تعلق عطا فرمایا آپ 1301ھ میں حج کے لیے تشریف لے گئے تو آ پ کو حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہو ا، 1310ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے آپ کو خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفرازفرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا: ’’ میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہے‘‘،’’ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء‘‘
1310ہجری میں کان پور سے اپنے وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ،تو انہوں نے جواب میں فرمایا: ’’بہتر ہوا آپ تھانہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دْعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے‘‘۔
چنانچہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خْدا کو مستفید فرمانے لگے۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں خانقاہی فقیری و درویشی کی ہیئت کذائی بن چکی تھی ،جہاں کتاب و سْنت سے بالکل بے گانہ اور بے نیاز ہو کر چند جوگیانہ رسوم اور طریقہ نفس کشی ہی کو واصل حق ہونے کا ذریعہ اور ملحدانہ عقائد کو حاصل تصوف سلوک سمجھ لیا گیا تھا، یہ ایک عالم گیر فتنہ تھا، جس میں اکثر دینی رجحان رکھنے والے نادان عوام مبتلا ہورہے تھے، چناں چہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری مصلحانہ توجہ اور مجددانہ تبلیغ کی جدوجہد اسی طبقہ کے لیے خاص طور پر مبذول فرمائی اور اس موضوع پر عقائد واعمال کی اصلاح کے لیے متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں،سینکڑوں وعظ وملفوظات قلم بند کراکے شائع فرمائے اور قرآن و حدیث کی غیر متزلزل سند کے ساتھ تمام باطل عقائد کا رد اور تمام غیر اسلامی رسم و روایات اور غیر معقول و ملحدانہ رموز و اسرار باطنی اور گمراہ کن اصلاحات کی تردید فرمائی اور نہایت نمایاں طور پر واضح کردیا کہ طریقت یعنی تصوف وسلوک یا دوسرے الفاظ میں تہذیب اخلاق و تزکیہ نفس دین مبین ہی کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے اور اس پر شریعت و سْنت کے مطابق عمل کرنا ایک درجہ میں ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء (1)حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمۃ اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر محمد عبدالحی صاحب عارفی رحمۃ اللہ علیہ (3)حضرت مولانا فقیر محمد صاحب پشاوری رحمۃ اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ(6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمۃ اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمۃ اللہ علیہ(9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ (12)حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ (13) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ(15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمۃ اللہ علیہ (16)حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمۃ اللہ علیہ (17)حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ(18) حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری رحمۃ اللہ علیہ (19) حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالکریم گھمتھلوی رحمۃ اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمۃ اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے خانقاہ تھانہ بھون میں مقیم ہوکر شروع ہی سے اپنی آئندہ زندگی کے انضباط اور اہم خدمات دین کے انتظام و انصرام کے لیے اپنے مذاق فطری اور نصب العین کے موافق ایک لائحہ عمل مقرر فرمایا اور اسی کے مطابق اپنے پیش نظر کام کے سر انجام دینے میں مشغول ہوگئے، اس وقت آپ کی عمر تقریباً 35 سال تھی، اس کے بعد یہ مجدد وقت اپنی مسند رشدو ہدایت پر ایک نسخہ اکسیر اصلاح امت کے لیے لے بیٹھے۔
خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں اللہ پر توکل کرکے قیام پذیر ہونے کے بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی ،تقریباً نصف صدی سے زائد تک تصنیف و تالیف اور مواعظ و ملفوظات میں بسر ہوئی۔ ملک اور بیرون ملک ہزاروں طالبین حق و سالکین طریق تعلیم و تربیت باطنی اور تزکیہ نفس سے فیض یاب اور بہرہ ور اندوز ہو کر بحمد اللہ امت مسلمہ کے رہبرو مرشد بن گئے، جن کا فیضان روحانی اب تک جاری و ساری ہے۔
اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک حضرت رحمہ اللہ علیہ کاملک کے طول عرض میں تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا، بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درس گاہوں ، انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں حضرت کے بڑے انقلاب انگیز اصلاحی وعظ ہوئے ، بعض دفعہ وعظ کا سلسلہ چار چار گھنٹہ تک جاری رہتا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے اور دینی و دنیوی تقاضوں سے آگاہ ہو کر ایمانی تقویت اور روحانی فیض پاتے۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو زمانہ طالب علمی سے ، بلکہ بچپن سے وعظ کہنے کا شوق تھا،حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر میں روانی ہوتی تھی اور جو اثر حضرت کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے نہایت ہی برجستہ ، پرمعنی، فصیح و بلیغ اور جامع و مانع الفاظ میں ہوتا تھا اس کا لطف کچھ وہی خوب جانتے ہیں جنہوں نے حضرت کا کوئی وعظ سْنا ہے، بلا مبالغہ بس یہ معلوم ہوتا کہ کسی زبردست محقق اور جید عالم نے نہایت فرصت میں اور نہایت غوروخوض کے ساتھ کسی ایک خالص اور دقیق و مفید علمی مضمون پر نہایت مبسوط اور مربوط،جامع رسالہ تصنیف کیا ہے، وہ پڑھ کر سْنایا جارہا ہے، عام واعظوں کی طرح نہیں کہ بلا لحاظ اصل مضمون جو کچھ ذہن میں آتا چلا گیا اس کو بلا ترتیب بیان کرتے چلے گئے اور جہاں چاہا ختم کردیا۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ خاص طور پر عقائد کی اصلاح ، اعمال کی درستی، معاملات کی اہمیت اوراخلاق کی پاکیزگی کے لیے ہوا کرتے تھے، حضرت کی مساعی اور جدوجہد کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہو اکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کے ضمیر میں اسلامی شعور و شعائر کا جذبہ بیدار ہونے لگا اور حق و باطل کا صحیح معیار واضح ہوگیا۔ اکثر و بیشتر مواعظ قلم بندہوئے اور طبع ہو کر شائع ہوئے اور بعض شائع نہ ہوسکے، آپ کے شائع شدہ مواعظ کی تعداد تقریباً چار سو سے زائدہے، جواب بھی وقتاً فوقتاً شائع ہورہے اور ان سے اب بھی مسلمان فیض یاب ہورہے ہیں۔
اس زمانہ میں انگریز کے برسر اقتدار آنے کی وجہ سے مغربی فلسفہ اور تہذیب و معاشرت کا اثر پھیل رہا تھا ، جس سے عام طور سے تعلیم گاہیں تجارتی ادارے اور سرکاری محکمے اور عوام بڑی تعداد میں متاثر ہورہے تھے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس فتنہ کے انسداد کے لیے بڑے شدومد کے ساتھ تبلیغ شروع فرمائی، اس موضوع پر سینکڑو ں وعظ ،مختلف عنوانات کے ساتھ بیان فرمائے اور متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں، جو کہ کثر ت سے طبع ہو کر شائع ہوئیں۔ اس ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کا یہ اثر ہو ا کہ مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی شعائر کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا، عامۃ المسلمین کے علاوہ انگریزی تعلیم یافتہ لوگ، خصوصاً سرکاری محکموں کے بڑے بڑے عہدہ دار، وکیل، بیرسٹر ،جج، منصف و مجسٹریٹ کثرت سے حضرت کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور بعض تو حلقہ بگوش عقیدت ہوگئے اور بعض کی باطنی تعلیم و تربیت سے دینی حالت میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی کہ حضرت نے ان کو اپنے ’’خلفائے مجازین صحبت’’ میں شامل فرمالیا تھا، اس طرح حضرت نے اس دور میں ایک زندہ مثال قائم فرمادی کہ مسلمان خواہ کسی مسئلہ زندگی میں ہو اگر چاہے، تو پکا دین دار بن سکتا ہے، یہ حضرت رحمۃاللہ کی ایسی کرامت اور ایسا کارنامہ تبلیغ دین ہے جو ہر اعتبار سے انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے۔
علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔
آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر16 رجب المرجب 1362بمطابق 20 جولاائی 1943ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھانہ بھون میں آپ