شاباش
قصہ کچھ یوں ہے کہ عید کو آزاد ہوتے ہی ابلیس نے اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کی اور سب کارندوں کو مدعو کیا، ہونا کیا تھا؟ دستور ہے کہ جب کوئی شخص قید میں ہو تو جو اس کی مشکل گھڑی میں اس کے مشن کو قائم رکھے، اس کے اہل کا خیال رکھے، اُسے تو وہ ستائش کی نظر سے دیکھے گا ہی۔۔۔ اگر سیاست دان اپنے ساتھ جیل کاٹنے والوں کو مشیر بناسکتے ہیں، ڈائریکٹر لگواسکتے ہیں تو کیا ابلیس انہیں شاباش نہیں دے سکتا؟ تو جناب پہلی شاباش ملی ریٹنگ کے جن کو جس نے ماہ مقدس میں میڈیا کو اپنا گرویدہ بنایا اور ماہ مقدس میں عوام کو اخلاقی، مذہبی، اسلامی، تاریخی اور فقہی موضوعات سے ہٹا کر اچھے خاصے نیلام گھر، بلکہ مفت گھر میں بدل دیا۔ جہاں عوام ماہ رمضان میں بخشش کی دعا کیا کرتے تھے، وہاں ہر لب پر یہ دعا کہ یا اللہ 5 نمبر ڈبے سے گاڑی نکل آئے یا 7 نمبر ڈبے سے 20 تولے سونا نکل آئے۔ بڑھے بوڑھے خدا سے توبہ مانگنے کی بجائے موبائل فون کے انعام مانگتے پائے گئے، میزبانوں کے لئے دعائیہ اور خوشامدانہ اشعار سن کر مغلیہ ہندوستان کے بادشاہوں کی شان میں کہے قصیدے شرما گئے۔ اب ظاہر ہے ان حالات میں تراویح و مناجات کا خیال کب رہتا ہے۔ بھلے ہی ان شوز سے چڑیا گھر والے ناراض ہوئے ہوں کہ ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کے جن نے ان کا کاروبار ٹھپ کردیا۔ اب لوگ بچوں کو لے کر دھوپ اور روزے میں چڑیا گھر گھمانے کیوں آتے ہیں سب کچھ تو افطار کے ساتھ فری دیکھنے کو ملتا ہے۔
دوسری شاباش اُن نعت خواں حضرات کو ملی جنہوں نے مقبول اور غیر مقبول گیت پیروڈی کرکے نعت میں بدل دیا اور رمضان سیزن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اقبال کے مرد مومن وضو کرکے نعت سنتے ہی ٹی وی پر بیٹھے اور نعت سن کر سبحان اللہ، اللہ اکبر، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے لاشعوری طور پر دماغ کے کسی کونے میں چھتے گیت کے اصل بول، دھن کے ساتھ لبوں پر تھرانے لگے اور جسم تھرکنے لگا۔ ظاہر ہے ان نعت خوان حضرات کی بدولت بعداز عید کئی سونغمے اور ان کی سی ڈیز زیادہ بکیں۔
اب آپ کہیں گے کہ کیا صرف شاباش ہی ملی، کیونکہ دستور ہے کہ اس طرح کی میٹنگز میں شاباش کے ساتھ ڈانٹ بھی ایجنڈے کا حصہ ہوتی ہے۔ تو جناب ڈانٹ اُن نااہل رپورٹرز کے لئے تھی جو اپنے فرض سے غافل رہے اور جن کی غفلت کے باعث قوم ایک ساتھ رمضان اور عید مناپائی۔ اُن کو سننا پڑا کہ اتنے برسوں بعد اس ریکارڈ کا موقعہ کیوں دیا گیا؟ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ مفتی پوپلزئی ملک سے باہر ہیں اور وزیر مذہبی امور مسجد قاسم خان کا چکر لگاچکے ہیں؟ غفلت کی انتہا دیکھیں کہ عجلت میں بار بار ٹکر چلانے کی کیا ضرورت تھی کہ فلاں جگہ چاند نظر آگیا۔ اس لئے مفتی منیب الرحمن کو ٹیلی فون کے تار کاٹنے کا موقعہ ملا۔ جب ابلیس کی ڈانٹ زیادہ ہوئی تو ابلیس کے ایک چیلے نے توجہ دوسری طرف کروائی اور بات کا رُخ کچھ یوں مڑا جناب والا! اشیائے صرف کے دکانداروں کی تو حوصلہ افزائی کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ان کے بارے میں ایک جملہ بھی ستائش کا نہ بولیں اور وہ اگلے سال خلیجی ممالک کی طرح ہر شے پر حقیقی سیل لگا کر روزہ داروں کو سکھ کا سانس دلوانے لگیں۔ یہ سن کر جناب ابلیس کی چڑھی تیوری مسکراہٹ میں بدل گئی اور یہ اجلاس ٹھیک ہے!شاباش! سب ٹھیک جارہا ہے! پر ختم ہوا۔