جسٹس منصور علی شاہ نے خاندانی ملکیتی 2ٹیکسٹائل ملوں کی تفصیلات جاری کر دیں ، معلومات کا مقصد عہدے کا وقار برقرار رکھنا ہے ،: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور(نامہ نگارخصوصی) چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ مسٹر جسٹس سیدمنصور علی شاہ اپنی خاندانی ملکیتی ٹیکسٹائل ملزسے متعلق تفصیلات منظرعام پرلے آئے ،چیف جسٹس نے انفارمیشن کمشن پنجاب کوتمام معلومات فراہم کر کے عدلیہ میں ایک نئی مثال قائم کردی ہے۔ رجسٹرارہائی کورٹ کی جانب سے انفارمیشن کمشن کومراسلہ بھجوایا گیاہے۔مراسلے میں کہا گیا ہے کہ انفارمیشن کمشنر نے ان کی خاندانی ٹیکسٹائل ملز سے متعلق معلومات مانگیں ،قانون کے تحت کسی بھی سرکاری آفیسریا شخصیت سے عوامی معاملات پرہی معلومات لی جاسکتی ہیں ، کسی بھی شخصیت کی ذاتی معلومات کوانفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل نہیں کیا جاسکتا ، چیف جسٹس نے قرار دیا کہ یہ معلومات صرف اس لئے دی جا رہی ہیں تاکہ چیف جسٹس کے عہدے کا وقار برقرار رہے ، مراسلے میں مزیدکہاگیا ہے کہ چیف جسٹس کے والد ٹیکسٹائل کے کاروبار سے وابستہ تھے اور وہ11نومبر 1984ء سے 16جنوری 1989ء تک منصور ٹیکسٹائل ملز اور آج ٹیکسٹائل ملز کے مالک تھے۔چیف جسٹس سید منصور علی شاہ اس وقت طالب علم تھے اور انہیں ان ملوں کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا،مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی جن ٹیکسٹائل ملز کے ڈائریکٹرہونے کے حوالے سے معلومات مانگی گئیں ،وہ 1988 ء میں فروخت کردی گئی تھیں اور1990ء میں ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق خریدارکے حوالے کردی گئی تھیں ، چیف جسٹس کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں ہیں، نہ ہی انہوں نے کبھی خاندانی کاروبار چلایا، انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اوروکالت کے بعد2009ء میں انہوں نے بطور جج اپنے فرائض منصبی ادا کرنا شروع کئے ، چیف جسٹس کی جانب سے اس بات کی وضاحت کی گئی کہ بطور جج نہ توکسی کمپنی کے لئے انہوں نے قرضہ حاصل کیا اورنہ معاف کرایا ہے، مراسلہ میں ایک دوسرے سوال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ 2012ء میں چیف جسٹس کے بیٹے سخت علیل ہوگئے تھے جس پر میڈیکل بورڈ نے انہیں بیرون ملک علاج کرانے کا مشورہ دیا۔ قانون کے مطابق انہیں سرکاری خرچ پر علاج کا استحقاق حاصل تھا جس کے تحت انہیں حکومت کی طرف سے 64 لاکھ روپے دیئے گئے، بیٹے کا علاج امریکہ اورانگلینڈ میں ہوا جس کے بعد انہوں نے بچ جانے والے 20لاکھ روپے بھی واپس خزانے میں جمع کرا دیئے تھے۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کی ہدایت پر ان کے2016ء اور2017ء کی انکم اور ویلتھ ٹیکس کی تفصیلات بھی لاہور ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پرظاہر کردی گئی ہیں ،چیف جسٹس کے ٹیکسٹائل ملزکے ڈائریکٹر ہونے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اپنی ٹیکسٹائل ملوں کا قرضہ معاف کروایا تھا ۔معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی ہے۔
چیف جسٹس