گوجرانوالہ کی الیکشن کہانی

گوجرانوالہ کی الیکشن کہانی
گوجرانوالہ کی الیکشن کہانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جنرل الیکشن 2018 ء ایسے وقت میں منعقد ہواچاہتے ہیں، جب وطنِ عزیز ایک سنجیدہ بحران سے گزر رہا ہے ۔ دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھایا ہے ۔

پینے کے صاف پانی کی قلّت ، بے روزگاری ، قرضوں کا بوجھ اور قومی نااتفاقی پورے عروج پر ہیں۔ایسے میں ملکی مفاد پسِ پشت چلا گیا ہوا ہے اور جملہ سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کی نظریں اپنی اپنی سیٹ پر گڑی ہیں۔

یہ فی الواقع تشویشناک صورت حال ہے ۔ جس کی جانب چودھری نثار علی خان صاحب نے اپنے ایک بیان میں بطورِ خاص توجہ دلائی ہے، مگر نفسانفسی کے ماحول میں کون کسی کی سنتا ہے ،لہٰذاچودھری صاحب کی بات پر بھی کس نے کان نہیں دھرے!۔۔۔جی ٹی روڈ کبھی پاکستان مسلم لیگ(ن) کا گڑھ سمجھی جاتی تھی اور اس کی تائید میں مخالفین کا یہ پراپیگنڈہ کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)دراصل جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے، اس سے بات کی کچھ سمجھ بھی آتی ہے۔ اسی جی ٹی روڈ پر لاہور کے بعد سب سے اہم اور قابلِ ذکر مقام ’’گوجرانوالہ‘‘ ہے۔

گوجرانوالہ کئی حوالوں سے معروف ہے جو تاریخ اور جغرافیے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ موجودہ عام انتخابات میں گوجرانوالہ قومی اسمبلی چھ اور چودہ صوبائی اسمبلی نشستوں پر مشتمل ہے۔

اس میں بنیادی مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کے درمیان ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ضلع گوجرانوالہ میں صرف چار حلقے ایسے ہیں، جہاں امیدواروں کا ذاتی اثرورسوخ پایاجاتا ہے ۔

یہ اثرورسوخ عموماً برادریوں کی بنیاد پر ہے، جس میں چودھری حامد ناصر چٹھہ، خرم دستگیر اور رانا نذیر شامل ہیں۔ ناہرہ خاندان گزشتہ چند سالوں کی رعایت سے برادری کے اثرورسوخ سے مستثنیٰ ہے۔ سابق ایم پی اے محمد ناصر چیمہ ایڈووکیٹ کے بیٹے جمال ناصر چیمہ بھی صوبائی حلقے کی حد تک بے اثر نہیں ۔ الغرض انتخابات کو قومی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے گا اور بظاہر یہ صرف دو پارٹیوں کے درمیان ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)اور پاکستان تحریک انصاف، اصل نتیجہ تو 25 جولائی کو سامنے آئے گا، لیکن حالات گواہی دیتے اور واقعات اشارہ کرتے ہیں کہ اس بار عمران خان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پورے ملک کی طرح گوجرانوالہ میں بھی پاکستان تحریک انصاف ذرا اوپر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نیچے آئی ہے،اگر حالات و واقعات کی رفتار کا یہی اندازرہا تو گویا تحریکِ انصاف مرکز و صوبہ پنجاب میں حکومت بنانے جارہی ہے ۔

اس کے باوجود کہ وہ ٹکٹوں کی تقسیم میں حسبِ سابق ایک بار پھر غلطی کر گئی ہے، مثلاً اس کے ایک امیدوار برائے صوبائی اسمبلی پی پی 51 وزیر آباد شبیر اکرم چیمہ ہیں۔ لوگ ان کا نام مدھم آواز میں ’’ڈبل شاہ‘‘کے پسِ منظر میں زیر بحث لاتے اور صحیح یا غلط یہ سمجھتے ہیں کہ وہ قصور وار ہیں۔اس ماحو ل میں جب عمران خان کا طوطی بول رہا ہے اور میاں نوازشریف سے وابستگی رکھنے والے ان کی فرضی یا حقیقی ترقی کی داستانیں دہرا بلکہ بے سری لے میں گارہے ہیں، اس ماحول میں ایم ایم اے کے امیدوار صوبائی حلقہ پی پی 51 وزیر آباد محمد مشتاق بٹ کو نظر انداز بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ متوقع رزلٹ کو اپ سیٹ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ محمد مشتاق بٹ ایک دیندار ، وضع دار ، نیک نام اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں، ان کا ہاتھ اور دل کھلے ہیں۔ بنیادی طور پر بزنس مین ہیں اور دکھی انسانیت کے عملاً کام آتے ہیں۔

کئی لاچار اور ناچار لوگوں کا کچن ان کے تعاون سے چلتا ہے۔ بے سہارا مریضوں کے علاج ، روزگار کی فراہمی ، اجتماعی شادیوں اور دکھ سکھ کے موسم میں کبھی عوام سے دور نہیں رہے۔

عوام کی غالب اکثریت کے نزدیک یہ ایک فرشتہ ہے جو انسان کے روپ میں دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے پیدا ہواہے۔ان کی انتخابی مہم کو آگے بڑھانے میں جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے ضلعی نائب امیر وقاص احمد بٹ ایڈووکیٹ ، انجینئر گلزار احمد بٹ اور افضال احمد بٹ ایڈووکیٹ خوب حصہ ڈال رہے ہیں، جس سے علاقہ بھر میں محمد مشتاق بٹ کا حلقۂ اثر کافی بڑھا ہے اور کامیابی کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔
ان کے حقیقی حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے شوکت منظور چیمہ ہیں، مگر ان کا دامن اس بار بدعنوانی سے بے داغ نہیں سمجھا جا رہا، جس کی بنا پر ان کے لئے حلقے میں بہت بڑا مسئلہ بناہواہے۔

مجموعی طور پر پورے گوجرانوالہ میں ہر قومی و صوبائی حلقے میں ایک سے بڑھ کر ایک کانٹے دار مقابلہ ہے۔ ڈاکٹر نثاراحمد چیمہ سابق ایم این اے ، جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ اور سابق آئی جی موٹروے پولیس ذوالفقار احمد چیمہ کے سگے بھائی ہیں۔

ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ انہوں نے حکمتِ عملی سے ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کو حلقے میں حامدناصر چٹھہ کے بیٹے محمد احمد چٹھہ کے مقابلے میں کھڑا کیا ہے۔

محمد احمد چٹھہ ضمنی الیکشن میں چند سو ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ بادی النظر میں یہ ایک دلچسپ حلقہ ہے، تاہم جیتنے والے امیدوار کی نسبت پیش گوئی کرنا کافی سے زیادہ مشکل ہے، کیونکہ دیکھنے میں شہری حلقوں کا رجحان ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کے حق میں ہے۔

خرم دستگیر خاں کے بارے میں اہل حلقہ چہ مگوئیاں کرتے رہتے ہیں کہ ان کی جیت یا ہار کے برابر برابر امکانات ہیں۔ یہ ایک طرح سے مسلم لیگی امیدوار کے لئے بدشگونی بھی کہی جاسکتی ہے، تاہم ابھی کافی وقت پڑا ہے ۔ شاید میاں نوازشریف کی مظلومیت کی لہر چل پڑے ۔

اگر ایسا ہو گیا تو پھر معاملہ الٹ بھی ہو سکتاہے۔دیگر قومی و صوبائی حلقوں میں بھی امیدواروں کی نسبت ابھی تک ملا جلا رجحان ہی نظر آتاہے۔

انتخابات کا حتمی نتیجہ کچھ بھی ہو اور خواہ کوئی بھی جیت یا ہار جائے، لیکن لوگوں کے دل و نگاہ میں سب سے زیادہ احترام کے حق دار بہرکیف ایم ایم اے کے صوبائی امیدوار پی پی 51 وزیر آباد معروف صنعت کار محمد مشتاق بٹ قرار پارہے ہیں، جن کا بنیادی تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔

ان کے سوا عموماً ضلع بھر کے تمام قابلِ ذکر امیدوار کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی سکینڈل کا حصہ بنتے رہے ہیں، تاہم متحدہ مجلسِ عمل کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کا ٹکٹ ہولڈر دین دار اور انسان دوستی میں سب سے آگے ہے۔اے کاش!مُلک بھر کے سب حلقوں میں انتخاب نیکی بمقابلہ نیکی ہو، نیکی بمقابلہ برائی نہ ہو!

مزید :

رائے -کالم -