مستونگ کے شہیدانِ جمہوریت کو سلام
مستونگ جیسے دور افتادہ علاقے کے ایک ویرانے میں منعقد ہونے والی کارنر میٹنگ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایک خودکش حملے کے اہداف تو اور بھی بہت سے ہو سکتے ہیں، لیکن ایسی جگہ کو نشانہ بنانے کا مقصد ایک گہری سازش ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا کے شہر پشاور اور بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دہشت گردی کے اندوہناک واقعات نے پہلا مقصد تو یہ حاصل کیا ہے کہ انتخابی مہم پر خوف کے سائے منڈلانے لگے ہیں، مگر اس سے بھی زیادہ یہ نکتہ چونکا دینے والا ہے کہ ان میں جن دو نوجوان سیاسی رہنماؤں کی انتخابی مہم کو نشانہ بنایا گیا، وہ اپنی پاکستان دوستی اور افواجِ پاکستان کے لئے پُرجوش محبت کے جذبات رکھنے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔
پشاور میں ہارون بلور کا بیانیہ سب پر واضح تھا۔ ان کے جو انٹرویوز اور وڈیو پیغامات سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں، ان سے واضح ہے کہ وہ دہشت گردوں کو للکارتے تھے اور پاکستان کو ان کے وجود سے پاک کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔وہ خود بھی ایک شہید خاندان کے سپوت تھے، اس لئے ان کی باتوں میں عزم و حوصلے کی سچائی نظر آتی تھی۔
جہاں تک سراج خان رئیسانی کا تعلق ہے تو اس شیر دل کی باتیں تو جذبہ ء حب الوطنی کے حوالے سے ایمان تازہ کر دیتی ہیں۔ وہ اس حوالے سے ایک واضح بیانیہ رکھتے تھے کہ بلوچستان میں دہشت گردی ’’را‘‘ کے ذریعے بھارت کرا رہا ہے۔
انہوں نے بھارتی پرچم کو پاؤں تلے رکھ کر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بھارت کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ دہشت گردوں نے اگر واقعی صرف خوف و ہراس پھیلانا ہوتا تو کوئٹہ میں کسی انتخابی میٹنگ کو نشانہ بناتے، مستونگ کے ایک لق و دق ویرانے میں تنبو لگا کر ہونے والی ایک رسمی انتخابی میٹنگ کو نشانہ بنانے کا مقصد سوائے اس کے اور کوئی نظر نہیں آتا کہ وہ بلوچستان کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ سراج خان رئیسانی جیسا بیانیہ رکھنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
آرمی چیف نے بالکل درست کہا ہے کہ بلوچستان ایک سچے اور دردمند دل رکھنے والے پاکستانی سے محروم ہو گیا ہے۔ سراج خان رئیسانی جیسے سیاستدان پاکستان کا روشن چہرہ اور مستقبل ہیں، جنہوں نے بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا پورے عزم سے لہرا رکھا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے ہارون بلور کے بارے میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
سراج خان رئیسانی کے قریب رہنے والے بتاتے ہیں کہ وہ ایک نڈر اور بے باک انسان تھے۔ وہ عام طور پر اپنے حلقے میں موٹرسائیکل پر گھومتے اور کسی حفاظتی حصار کے بغیر، ان کوسامنے سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا تھا، اس لئے دشمن نے چھپ کر وار کیا۔
ان کی جان لینے کے لئے دیگر 130افراد کو بھی موت کی نذر کر دیا۔ سراج خان رئیسانی کی شہادت سے پورے پاکستان کو یہ معلوم ہوا کہ بلوچستان میں پاکستان سے محبت رکھنے والے کیسے کیسے سپوت موجود ہیں جو ان کی کارنر میٹنگ میں آئے ہوئے تھے اور شہادت کا رتبہ پا گئے، وہ بھی یقیناًاسی بیانیہ کے قائل ہوں گے جو شہید رئیسانی نے اپنایا ہوا تھا۔ پاکستان کی سلامتی کا بیانیہ اور بھارت کی سازشوں کو ناکام بنانے کے عزم کا بیانیہ۔ بلوچستان کی تاریخ کا یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔
دہشت گردی کے کسی ایک واقعہ میں اتنی جانوں کا ضیاع پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایک گھر کے سات بیٹے اس اندوہناک سانحہ کی نذر ہو گئے۔ اس ماں کا حوصلہ قابلِ رشک تھا، جس نے اپنے سات جگر گوشوں کے لاشے گھر سے اٹھتے دیکھے۔
اس باپ کی حالت بھی قابلِ رحم تھی، جس کے پانچ بیٹوں کو موت نے جدا کر دیا۔ نجانے کیسے کیسے لوگ اور کیسی کیسی کہانیاں سانحہ مستونگ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
بد قسمتی سے ہماری ترجیحات کچھ اور ہو چکی ہیں۔ یہی سانحہ لاہور، کراچی، ملتان یا راولپنڈی میں ہوا ہوتا تو میں دیکھتا کہ میڈیا اس سے کیسے صرف نظر کرتا، کیسے لندن سے اڑنے والے جہاز کی کہانیاں سنانے میں ہی الجھا رہتا؟ میں جب ٹی وی چینلز دیکھ رہا تھا تو میری نظر خبروں سے زیادہ سکرین پر چلنے والی اس پٹی پر تھی، جس میں سانحہ مستونگ کے شہدا کی تعداد ہر منٹ کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔
پہلے پہل بیس افراد کی شہادت کا اعلان ہوا، مگر رات 9 بجے تک تعداد 128 ہو چکی تھی۔ ابھی جو 150 زخمی ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب شدید زخمی ہیں، اللہ انہیں صحت دے، مگر خدشہ یہی ہے کہ تعداد بہت بڑھ بھی سکتی ہے۔
اب سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ چل رہی ہے کہ ’’ بلوچستان کو فنڈز آبادی کے لحاظ سے اور اموات رقبے کے لحاظ سے دیتے ہو، پھر انہیں اہمیت بھی نہیں دیتے، ایسے حالات میں بلوچ اگر منفی سوچوں کا شکار ہو جاتے ہیں تو اس میں ان کا قصور کیا ہے‘‘؟۔۔۔حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پشاور دھماکے میں ہارون بلور کی شہادت کے باوجود اے این پی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کے بزدلانہ حملوں سے خوفزدہ ہو کر میدان نہیں چھوڑیں گے۔
نہ الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے اور نہ الیکشن ملتوی ہونے دیں گے۔ ادھر مستونگ دھماکے میں اتنی زیادہ جانوں کے ضیاع کے بعد سراج خان رئیسانی کے بھائی لشکری رئیسانی نے کہا کہ دشمن ہمیں زیر نہیں کر سکتا۔
ہم پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا کر رہیں گے اور کسی کو جمہوریت کا سفر روکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ادھر قومی رہنماؤں نے بھی دہشت گردوں کی سازش کو ناکام بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
پے در پے دہشت گردی کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خفیہ دشمنوں کا ہدف یہ ہے کہ کسی طرح 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کو روکا جائے۔
موجودہ صورت حال میں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ آنے والے دس دنوں میں ایسے مزید واقعات بھی ہو سکتے ہیں، اس کے لئے خفیہ ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکنا رہنا پڑے گا۔
بحیثیت قوم ہم نے آگے بڑھنا ہے، جمہوری عمل کو جاری رکھنا ہے۔ یہ خفیہ طاقتیں جو ہمیں انتخابات سے دور کر کے انتشار کا شکار کرنا چاہتی ہیں، انہیں ناکام بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ 25 جولائی کو پوری قوم اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے گھروں سے نکلے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
یہ جو لوگ اس سارے عمل میں شہید ہوئے ہیں، یہ در اصل شہیدان جمہوریت ہیں۔ ان کے لہو سے پاکستان میں جمہوریت کا شجر سایہ دار پروان چڑھے گا۔ سراج خان رئیسانی کی یہ بات ہمارے دلوں کی آواز بن جانی چاہئے کہ پاکستان کی سلامتی اور جمہوریت کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔
مستونگ کا ایک نوجوان سردار اگر یہ بیانیہ اختیار کر سکتا ہے تو بڑے شہروں میں رہنے والے ہم لوگ کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ بھی خوش آئند امر ہے کہ بلوچستان میں، جہاں ہمیشہ سرداروں نے فوج مخالف رویوں کو فروغ دیا اور لوگوں کو فوج کے خلاف ابھارا، وہاں سراج خان رئیسانی جیسے نوجوان سیاسی رہنما بھی موجود ہیں جن کی فوج سے محبت فراواں ہے جو بھارت کے اس پراپیگنڈے کا اثر قبول کئے بغیر کہ پنجابی فوج نے بلوچستان پر قبضہ کر رکھا ہے، یہ کہتے ہیں کہ پاک فوج ہماری محافظ اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔
جن کا ذہن اس نکتے پر بالکل واضح ہے کہ بھارت ’’را‘‘ کے ذریعے بلوچستان میں مداخلت کررہا ہے اور بھٹکے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو اپنی گھناؤنی سازشوں کے لئے استعمال کرتا ہے، اُس کے خلاف پاکستان کی فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے، اس لئے اُس کی حمایت ضروری ہے۔
مستونگ کا سانحہ پورے پاکستان کے لئے غم کی ایک ایسی داستان چھوڑ گیا ہے، جس کے زخم شاید مشکل ہی سے مندمل ہوں گے۔ مستونگ کے قریب بلوچوں نے جمہوریت کے لئے لازوال قربانی دی ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بلوچستان میں لوگ انتخابات کے حوالے سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، وہاں مستونگ کے نسبتاً غیر آباد علاقے میں اُن کا ایک انتخابی جلسے کے لئے اتنی بڑی تعداد میں جمع ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی قدر سے آگاہ ہیں، وہ آئندہ نمائندوں کے چناؤ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں، وہ جس جذبے کے ساتھ اُس کارنر میٹنگ میں گئے تھے، اُسے پیش نظر رکھنا چاہئے، اس لئے میں انہیں شہیدان جمہوریت کہتاہوں۔
انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے پودے کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔ انہوں نے علیحدگی پسندوں، ملک دشمنوں، فوج اور جمہوریت مخالفوں کو رد کرکے انتخابی عمل میں حصہ لیا تھا اور اسی کے دوران وہ جام شہادت نوش کرگئے، اللہ اُن کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔
ان شاء اللہ جمہوریت کا سفر جاری رہے گا اور بلوچستان میں نہ صرف بھارت،بلکہ وہ تمام مکروہ قوتیں ناکام ہوں گی، جو بلوچستان میں نفرتوں کے بیج بونے اورامن کو تباہ کرنے کے لئے برسرِ پیکار ہیں۔