اور اب راجہ داہر کے بیٹے
ہفتہ قبل کالم اخبار کو بھیجا ہی تھا کہ راجہ داہر کے امتی بھی میدان میں آ گئے۔ لاہور کے شاہی قلعے میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی بی سی نے بعض سندھیوں کے حوالے سے اس شہہ سرخی کے ساتھ سندھی قوم پرستوں کی ترجمانی کی: ”سندھ میں راجہ داہر کا مجسمہ نصب کرنے پر آپ کو غصہ تو نہیں آئے گا؟“کسی قوم پرست کی نمائندگی کرتے ہوئے بی بی سی یوں رقم طراز ہے: ”پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے“۔ ایک پیج پریہ محب وطن ادارے ملک کو کس فکری انتشار کی طرف لے جا رہے ہیں؟ میرے لئے تواس کاتصور ہی محال ہے۔کیا ان عقل کل محبان وطن کولاہور شاہی قلعے میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کرنے کے اپنے اس کارنامے کے نتائج کا معمولی سا، کوئی ہلکا سا ادراک بھی نہیں ہے؟ کسی شخص کی بداعمالیوں کا بالعموم اس کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کسی غیرمسلم کی بداعمالیوں پر کچھ لکھا جائے تو لو گ اس کے تمام ہم مذہب افراد کو بھی لپیٹ میں لے آتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ دودھ عبداللہ بیچے تو قابل نفریں۔ لوگ تو خالص دودھ چاہتے ہیں، بھلے وہ ارجن سنگھ سے ملے یا بوٹا مسیح سے۔اگر کوئی رنجیت سنگھ سے خود کو منسوب کرتا ہے تو مت سمجھ لیجئے کہ وہ سکھ مذہب کو پسند کرتا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ رنجیت سنگھ کے جملہ خصائص اور بداعمالیوں سے پیار کرتا ہے۔
سکھ مذہب میں بھی ایک سے ایک انسان دوست مل جاتے ہیں۔ سوجھ بوجھ رکھنے والا مطالعہ کا دلدادہ کوئی طالب علم مجھ سے کسی کتاب پر رائے لے تو مَیں اسے ایک سکھ، دیوان سنگھ مفتون کی ’ناقابل فراموش‘ پڑھنے کو کہتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ سکھ اس وقت کے ضلع گوجرانوالہ کا باشندہ تھا، اگر یہ وجہ ہوتی تو اسی گوجرانوالہ کے ایک دوسرے سکھ رنجیت سنگھ پر میں لعنتیں کبھی نہ بھیجتا۔ مذہب بجائے خود کوئی بھی ہو، ایک مقدس اکائی ہوا کرتا ہے اور ان کے ماننے والے ایک دوسرے کے لئے واجب الاحترام ہوا کرتے ہیں۔ اس کرۂ ارض پر بسنے والے تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور ان کے مابین الفت و محبت کا رشتہ ہی عالم گیر وحدت کی بنیاد ہے۔ یہ جو نفرتوں کے سوداگر نکل آئے ہیں، یہی لوگ انسانوں کے مابین تفریق کی خلیج کو گہرا کرتے ہیں۔ آج نہ تو راجہ داہر کی سلطنت کااحیاممکن ہے اور نہ رنجیت سنگھ کا دور واپس آ سکتا ہے۔ انسانوں کے مسائل میں سے سرفہرست امن کا قیام اور بھوک سے نجات ہے۔ حکمران جب دن رات اپنے عشرت کدوں میں کچھ دیگر قسم کے مشاغل میں کھو جائیں تو ان کے مصاحب محکوم کو سلانے کے لئے اس طرح کے کشتہ جات تاریخ سے نکال لاتے ہیں۔ کبھی راجہ داہر تو کبھی رنجیت سنگھ، یہ حکمرانوں کی ساحری کے سوا کچھ نہیں ہے۔
فکری ونظری تقسیم اس قدر مضبوط بنیادوں پر ہوا کرتی ہے کہ انسان اپنی نسبی اور مذہبی شناخت تک نظرانداز کر دیتا ہے۔ جی ایم سید! غلام مرتضیٰ سید، سندھ کے معروف قوم پرست رہنما! سید بولے گا تو کیا اپنے نانا کے خلاف کسی نظریے کے حق میں بولے گا؟ کیا سید کسی بت پرست برہمن کے حق میں بولے گا؟ میرے لئے تواس کاتصور ہی محال ہے۔ پتھر کے تراشے بتوں کے توڑنے ہی سے تو ابراہیم اور آذر میں نظری تقسیم پیدا ہوئی تھی۔ یہی تقسیم محرم راز خالق کائنات اور ان کے اپنے کنبے کے مابین خلیج کا سبب بنی اور فتح مکہ پر منتج ہوئی۔ اسی محرم راز خالق کائنات کا سید نواسہ بولا بھی تو کس کے حق میں؟ راجہ چچ کے بت پرست برہمن بیٹے راجہ داہر کے حق میں! سومرو، بھٹو، جتوئی، ابڑو، پلبوٹو اور دیگر مقامی سندھی قبائل راجہ داہر سے کوئی نسبی رشتہ تراشنا چاہیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے، یہ نوآباد کار سید زادہ بت پرست راجہ داہر کی وکالت کرے توکیوں؟ میں خواہ مخواہ! لیکن بات اتنی آسان نہیں ہے۔ کسی مقامی مسلم غیرمسلم سندھی نے اس غیرمقامی سید زادے کو عرب کہہ کر کبھی کوئی شٹ اَپ کال نہیں دی، کیوں نہیں دی؟ وہی فکری ونظری تقسیم!اگر کوئی مسلم راجہ داہر سے خود کو منسوب کرتا ہے تو مت سمجھ لیجئے کہ وہ بت پرست برہمن کو پسند کرتا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ راجہ داہر کے جملہ خصائص اور اس کی بداعمالیوں سے پیار کرتا ہے۔
جوتشیوں نے بتایا کہ جو شخص راجہ داہر کی بہن رانی بائی سے شادی کرے گا، سندھ کا حکمران وہی ہو گا۔ راجہ داہر نے اپنی بہن سے شادی کر لی اور سندھ کا حکمران بن گیا (کہتے ہیں، ازدواجی تعلقات قائم نہیں کئے)۔یہ سید زادہ بت پرست کی وکالت کرے توکیوں؟
سندھ کی تاریخ ہمیں صرف ایک مقامی ذریعے سے ملتی ہے: چچ نامہ یا فتح نامہ۔ یہ کتاب ایک مقامی عرب نے عربی میں لکھی جو عربی سے فارسی میں اور پھر دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ اس کے علاوہ سندھی تاریخ کے جملہ ذرائع عربوں کے ہیں۔ تیرہ چودہ صدیوں بعد راجہ داہر کی وکالت کو میدان میں آیا بھی تو کو ن؟وہی سید زادہ! جی ایم سیدفرماتے ہیں ”برہمن تو کزن سے شادی کو ناجائز کہتے ہیں، بہن سے راجہ داہر کی شادی کیسے ممکن ہے؟“ یہ سوال پھرسوال نہ رہا۔ اس کے بعد سندھ کی جامعات میں اس مفروضے کے حق میں طومار لگ گئے۔ کتنے؟ چودہ صدیوں بعد! بغیر کسی حوالے کے، بغیر تاریخی ثبوت کے اور محض قیاسات کے گھوڑوں پر!غیرسندھی اور عرب سید زادہ اس بت پرست برہمن زادے کے حق میں یوں رطب اللسان ہے:”ہرسچے سندھی کو راجہ داہر کے کارنامے پر فخر کرنا چاہئے“ کیونکہ ”سرداد نہ داددست در دست……!“ قارئین کرام جی ایم سید کے لیے کوئی مناسب سا خطاب آپ اپنی فکری ونظری تقسیم کے لحاظ سے خود ہی رکھ لیں، میں کوئی فتویٰ نہیں دوں گا۔ سید زادہ بت پرست کی وکالت کرے توکیوں؟
یہ البتہ ماننا پڑتا ہے کہ سندھ میں اس بابت جو بھی کہا گیا، دلیل کی بنیاد پر اور علمی داعیے کے ساتھ کہا لکھا گیا، اگرچہ یہ کام ناقص بنیادوں پر ہے۔ ادھر پنجاب کی طرف آئیں تو صاحب یہاں جاہلوں کے خانوادے میں کسی علمی دلیل یا تاریخی روایت کا کیا ذکر؟ یہ تو البتہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ پنجاب میں یہ نظری و فکری تقسیم بہت کم،بلکہ عوامی سطح پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاہور کے شاہی قلعے میں مجسمہ نصب کر کے یہاں رنجیت سنگھ کوجو پذیرائی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کے ذمہ دار ایک پیج پر ریاستی ادارے بشمول حساس محب وطن لوگ ہیں۔ یہ لوگ چونکہ خود کو عقل کُل گرداننے کے عادی ہو چکے ہیں، اس لئے اپنے خیال میں یہ لوگ ایک بڑے ہی اعلیٰ مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں، یعنی ”مشرقی پنجاب کے سکھوں کی پاکستان سے قربت اور ہندوستان سے دوری۔“ قارئین کرام! یہ کام تو جنرل ضیاء الحق شہید بڑی خوش اسلوبی سے کرتا رہا ہے۔ اس خوش اسلوبی سے کہ ان کی شہادت پر مشرقی پنجاب کے گردواروں میں ان کے لئے گرنتھ کا پاٹھ ہوتا رہا ہے۔
راجہ داہر اورر نجیت سنگھ کی اکیسویں صدی کی اس خودساختہ رعایا اور پجاریوں کے لئے ایک ناقابل حل مسئلہ بہرحال رہے گا۔ اتنا خوفناک مسئلہ کہ اس کے لیے پاکستان تو کیا، دو تین ملکوں کے مابین جھڑپیں شروع ہو جانے کا خدشہ ہے۔راجہ داہر کے امتی، ظاہر بات ہے، راجہ داہر کی عظیم سلطنت کے احیا کاکام کر رہے ہیں۔ ان امتی لوگوں کا فکری اتحاد رنجیت سنگھ کی امت سے یقینا ہے۔ ادھر رنجیت سنگھ کے پجاری اس ”عظیم پنجابی سلطنت“ کے لئے اپنا آرام اور چین قربان کر رہے ہیں۔ یہ دونوں گروہ، یقین کیجئے، پرچھائیوں پر حملے کر کر کے بے حال ہو جائیں گے لیکن مقصد کا حصول، اس اکیسویں صدی میں؟ ناممکن الحصول، مشکل نہیں ناممکن،کیسے؟ غور کریں۔ذرا داہر کے لئے ایک نامعقول اور ناقابل عمل مفروضہ سامنے رکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر راجہ داہر کے بیٹے صدیوں قبل کے سندھ کو زندہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں،لیکن اس صوبے کا کافی رقبہ تو موجودہ بلوچستان اور کچھ رقبہ افغانستان پر مشتمل ہو گا؟ قلات اور گوادر پر بھی اسی ر اجہ داہر کی عظیم سلطنت سندھ کی عملداری ہو گی؟کچھ رقبہ ہندوستانی ریاست گجرات سے بھی ہتھیانا ہو گا، کیسے؟ یہ آپ کو وہی لوگ بتائیں گے جو اس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ ذرا آگے چلیں! راجہ داہر کی سلطنت کی شمالی سرحد موجودہ پنجاب کے لاہور سے ذرا نیچے تک تھی۔ رہا لاہور اور اوپر کا باقی پنجاب تو وہ اس وقت کشمیر کا حصہ تھا۔ پنجاب نام کا کوئی خطہ، کوئی صوبہ، کوئی علاقہ، کوئی ریاست اس زمانے میں کوئی وجود نہیں رکھتا تھا۔ اب جب راجہ داہر کے بیٹے لاہور تک حکومت کریں گے تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ رنجیت سنگھ کے بیٹوں کی سلطنت کہاں سے شروع ہو گی اور کہاں ختم ہو گی۔
چلئے اب رنجیت سنگھ سے شروع کرتے ہیں، جس کی سلطنت ملتان سے نیچے بہاولپور کی سرحد تک تھی۔ مجھے ازحد خوشی ہو گی اگر رنجیت سنگھ کی اولاد وہ سلطنت پھر سے قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے کیونکہ اس میں پورا جموں کشمیر شامل تھا، یوں کشمیر کی آزادی بھی یقینی ہوجائے گی۔ صوبہ خیبر ہمارا داخلی مسئلہ ہے، کوشش کریں گے کہ صوبے کے لوگ کشمیر کی آزادی کی خاطر اپنے صوبے سے دستبردار ہو کر اسے ”عظیم پنجابی سلطنت“ میں شامل کرانے پر رضامند ہو جائیں۔ لیکن نہ حل ہونے والا مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں عظیم راجاؤں کی اولادوں کی موجودہ سلطنتوں کی حدبندی کیسے ہو گی۔ ہندوستان اور افغانستان توشاید قربانی دے دیں اور ایثار کرتے ہوئے اپنے متعلقہ حصے ہمیں دینے پر راضی ہو جائیں، لیکن جس بڑے حصے پر راجہ داہرحکومت کرتا تھا، اس میں رنجیت سنگھ کا رقبہ بھی شامل تھا۔ اور جس قلمرو میں رنجیت سنگھ کا سکہ چلتا تھا، ماضی میں اس کا کافی حصہ راجہ داہر کے پاس تھا اور پنجاب نام کا کوئی خطہ موجود نہیں تھا۔ یہ سرحدی تنازعہ تو ہے نہیں، یہ تو ایک ہی خطے کے دو دعوے دار ہوں گے، اس کا کوئی حل ہے تو بتا دیں۔ پھر یاد دلا دوں کہ راجہ داہر کی سلطنت کی سرحد کشمیرسے ملتی تھی اور کشمیر نیچے لاہور تک ٹانگیں پسارے ہوئے تھا۔پنجاب نام کا کوئی خطہ، کوئی صوبہ، کوئی ریاست اس زمانے میں موجود نہیں تھا، رنجیت سنگھ کے بیٹے کہاں حکومت کریں گے؟
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری
قارئین کرام! ان محبان وطن حکمرانوں کی ساحری کا کوئی ایک رنگ ہو تو ہم آپ کو بتایا کریں۔ قبل از مسیح نہیں، ابھی سال بھر قبل ایک صاحب ڈیم بنانے نکلے تھے۔ کوئی ایک سرکاری محکمہ بتائیں جو اس نابغہ روزگار شخص کی مدد نہیں کر رہا تھا۔ اب چھوٹے بچے سوال کرتے ہیں کہ انکل وہ ڈیم کا کیا ہوا، تو کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ذرا اور پیچھے چلے جائیں، ایک محب وطن نے بسنت کے نام پر لوگوں کے گھروں میں ماتم ڈالوا دیے، والدین کی اشک بار آنکھیں خشک ہونے میں نہیں آ رہیں۔ وہاں مزاحمت ہوئی تو عورتوں کی میراتھن ریس نکال لائے۔ اب آج کل کے محب وطن ر نجیت سنگھ نکال لائے ہیں۔ معصوم نوعمروں کو عنفوان شباب ہی میں یہ لوگ پرچھائیوں کے تعاقب میں لگا دیتے ہیں اور وہ معصوم ساری زندگی یہی کچھ کرتے رہتے ہیں۔ آج نہ تو راجہ داہر کی سلطنت کااحیاممکن ہے اور نہ رنجیت سنگھ کا دور واپس آ سکتا ہے۔ انسانوں کے مسائل میں سے سرِفہرست امن کا قیام اور بھوک سے نجات ہے۔