قصہ ایک حیران کن کردار کا!

قصہ ایک حیران کن کردار کا!
قصہ ایک حیران کن کردار کا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جج ارشد ملک اگر کسی ناول کا کردار ہوتا تو نقادوں کے لئے اُس کا نفسیاتی تجزیہ کرنا کارِ دشوار ہو جاتا۔ یاد رہے کہ اُردو ادب میں کردار نگاری کا تجزیہ کرنا فن ِ تنقید کا ایک بہت مشکل مرحلہ سمجھا جاتا ہے، مگر جج ارشد ملک نے تو بڑے بڑوں کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ اتنے بہادر ہیں کہ تمام تر پیشکشوں اور دھمکیوں کے باوجود نواز شریف کو سزا سنا دیتے ہیں اور دوسری طرف اتنے بزدل ہیں کہ دھمکیوں اور رشوت کا معاملہ اپنے مانیٹرنگ جج کے نوٹس میں نہیں لاتے۔ایک طرف اتنے بھولے نظر آتے ہیں کہ انہیں انگلی پکڑ کر جہاں بھی لے جایا جائے چلے جاتے ہیں،حتیٰ کہ جاتی عمرہ بھی،لیکن دوسری طرف اتنے ہوشیار ہیں کہ ایک ایک منظر پر نظر رکھتے ہیں۔ایک طرف اتنے کمزور کردار کے مالک ہیں کہ پُرتعیش دعوت کے لئے بہک جاتے ہیں اور دوسری طرف اتنا مضبوط کردار رکھتے ہیں کہ پچاس کروڑ روپے کی آفر تک ٹھکرا یتے ہیں۔ایک جانب وہ نواز شریف سے ملاقات میں اُن کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور دوسری جانب وہ سب کچھ وڈیو ٹیپ میں کہہ دیتے ہیں،جس سے انکار کر کے آتے ہیں، سو مجھے تو اُن کا کردار بڑا خیالی سا لگتا ہے۔کسی ناول میں یہ کردار ہوتا تو نقادوں نے اُس کی دھجیاں اڑا دینی تھیں اور ناول نگار کو پرلے درجے کا بے وقوف، عقل سے پیدل اور انسانی نفسیات سے نابلد قرار دینا تھا۔


صرف یہی نہیں،بلکہ جج ارشد ملک کا کردار اس حوالے سے بھی بہت لایعنی اور ماورائے حقیقت نظر آتا ہے کہ اُس کی آگے بڑھنے کی رفتار اور صلاحیت ماورائے عقل ہے،وکیل سے جج اور جج سے پھر ایک ایسا جج جو پورے ملک کی عدلیہ کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتا ہے، بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔جب وہ2001-02 میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہے تو خاصے رنگین مزاج تھے۔ مَیں میاں ادریس اور میاں طارق کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ ایسے افسروں اور ججوں کی تلاش میں رہتے تھے جو بقول غالب: ”رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے“ کے نظریے پر یقین رکھتے ہوں۔ اُن کی دسترس میں پولیس افسران، جج، ضلعی انتظامیہ کے کرتا دھرتا غرض سبھی ہوتے تھے۔

ہم حیران ہوتے کہ پرانے ٹی وی بیچنے کا دھندہ کرنے والے یہ بھائی آخر کیا شے ہیں کہ ہر دفتر میں اُن کا استقبال ہوتا ہے، ڈنکا بجتا ہے،ایسے ہی کمزور لمحوں میں جج ارشد ملک بھی محفل رقص و سرود کا حصہ بنے،پھر اس بات سے بے خبر رہے کہ اُن کی عالم مدہوشی میں وڈیو بھی بنا لی گئی ہے۔ اب یہاں اس کردار کا ایک جھول سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے اگلے دن ہوش میں آنے پر انہیں کسی نے تو بتا ہی دیا ہو گا کہ اُن کی رات محفل میں شرکت پر وڈیو بن گئی ہے، پھر انہوں نے اس کے حصول اور میاں طارق کو اسے ضائع کرنے کے لئے تگ و دو کیوں نہیں کی۔کیوں سولہ برس تک اُسے پڑا رہنے دیا گیا، تاوقتیکہ وہ ایک بم کی صورت میں اُن پر آ گری۔خیر اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کی سرگرمیوں کا کسی خفیہ ایجنسی کو علم کیوں نہیں ہوا۔ ایک شخص جو ایسی محفلوں میں شریک ہوتا رہا، جو ایسے لوگوں کی طرف سے سجائی جاتیں جو اس سلسلے میں شہرت رکھتے تھے، آخر ان کا پتہ آئی بی اور سپیشل برانچ کو کیوں نہیں چل سکا؟ خاص طور پر جب ان کی جج احتساب کورٹ تعیناتی ہو رہی تھی تو ان کی کلیئرنس کیسے ہو گئی؟یہ تو انتہائی حساس منصب ہے، پھر اس پر ایک ایسا شخص کیسے متمکن ہو گیا،جس کی سولہ سال پہلے مخرب اخلاق ویڈیو بن چکی تھی۔

سابق جج احتساب کورٹ ارشد ملک کے کردار کا جتنا تجزیہ کریں،یہ اتنا ہی چکرا دیتا ہے۔ مثلاً یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جب ارشد ملک کو معلوم تھا کہ وہ کئی کمزوریوں کے حامل ہیں تو انہوں نے جج احتساب کورٹ کے لئے خود کو کیوں پیش کیا،بلکہ اس کے لئے پورا زور لگایا، ایک بار جب سمری مسترد ہو گئی تو دوسری بار زیادہ سفارشوں کے ساتھ وزارتِ قانون میں بھجوائی اور آرڈر حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ انہیں میاں طارق کے گھر بنائی گئی ویڈیو کا علم جج احتساب کورٹ بننے کے بعد ہوا ہو، کیونکہ میاں طارق نے اِس ویڈیو کی بنیاد پر ان سے نجانے پہلے کتنے کام نکلوائے ہوں گے۔ جب انہیں اپنی اس کمزوری کا علم تھا تو پھر انہوں نے ایک ایسا منصب کیوں حاصل کیا، جس میں شدید دباؤ ہوتا ہے۔

کیا اس کے پیچھے بھی کوئی دباؤ تو نہیں تھا کہ وہ جج احتساب کورٹ کا منصب قبول کریں وگرنہ ویڈیو سامنے لا کر ان کا کیریئر برباد کر دیا جائے گا؟ اگر بالفرض ایسا ہے تو ان کا کردار مزید اُلجھ جاتا ہے، پھر تو انہیں نوازشریف کو دونوں کیسوں میں بری کر دینا چاہئے تھا۔ العزیزیہ ریفرنس میں انہیں سات سال قید کیوں سنائی۔ کیا واقعی وہ دونوں طرف سے دباؤ کا شکار تھے، یعنی شریف خاندان کے ذرائع بھی ان پر دباؤ ڈال رہے تھے اور وہ قوتیں بھی جن کی طرف مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنس میں اشارہ کیا، ان پر نواز شریف کو سزا دینے کے لئے دباؤ ڈال رہی تھیں تو کیا ان کے کردار کا تجزیہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دو کشتیوں میں سوار ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں کو راضی کیا جائے۔ایک میں نواز شریف کو صاف بری کر دیا اور دوسرے میں دس کی بجائے سات سال کی سزا سنا دی، کیا عدلیہ میں کسی ایسے کردار کی گنجائش نکلتی ہے،جو خود کو بچانے کے لئے ایسے فیصلے کرتا ہو کہ ”باغباں بھی خوش رہے اور راضی رہے صیاد بھی“۔

ارشد ملک کے کردار کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اس نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ یہاں تو ایجنسیاں معمولی سرکاری افسروں پر بھی نظر رکھتی ہیں،ان کے فون بھی ٹیپ کرتی ہیں، مگر ارشد ملک عجیب کردار تھے کہ ان پر کسی کی نظر ہی نہیں تھی، حالانکہ انہیں سیکیورٹی بھی ملی ہوئی تھی اور ان کی پوسٹ بھی بہت ہائی پروفائل تھی۔ وہ جادو گر تھے یا چھلاوے کہ جاتی عمرہ گئے، انہیں کسی نے نہیں دیکھا، ناصر ملک اور ناصر جنجوعہ سے ملتے رہے اور وہ بھی اُن کے دفاتر میں، مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔ مدینہ منورہ میں حسین نواز سے ملے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔اُن کی وڈیو بنتی رہی،انہیں علم نہ ہوا، حتیٰ کہ وہ ملتان آئے، میاں طارق سے ملے، اُس نے وڈیو کس کو دی اور کیسے دی کے بارے میں سوالات کئے، ملتان کے بارونق علاقے ابدالی روڈ پر قائم دکان میں بیٹھے رہے، تصویریں بنتی رہیں، مگر پھر بھی کسی کو کچھ معلوم نہ ہوا۔

سو ایسا کردار تو روئے زمین پر کم کم ہی نظر آتا ہے۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ فلموں میں ہیروئن اپنے محبوب کے فراق میں سازو آواز کے ساتھ رات گئے گانا گا رہی ہوتی ہے اور پورا گھر خراٹے لے کر سویا ہوتا ہے، اتنا فری ہینڈ اور بے فکری کے ساتھ کھیلنے والا جب اپنے بیانِ حلفی میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے،انہوں نے فیصلے اپنے ضمیر، آئین اور قانون کے مطابق دیئے ہیں تو حیرانی ضرور ہوتی ہے۔اُن کے اس دعوے سے تو ایک نیک، پارسا، خوفِ خدا سے مالا مال اور نڈر شخص کا تصور اُبھرتا ہے، حالانکہ کہانی کے مطابق یہ کردار سولہ سال سے ایک وڈیو کے خوف میں مبتلا رہا ہے۔ان سولہ برسوں کے درمیان اس وڈیو کو منظر عام پر آنے سے روکنے کے لئے انہوں نے کہاں کہاں گھٹنے ٹیکے ہوں گے، مصلحت سے کام لیا ہو گا،غلط فیصلے دیئے ہوں گے، یہ تو وہ خود جانتے ہیں یا اُن کا خدا،مگر اپنے پہلے دن کی پریس ریلیز سے لے کر بیانِ حلفی تک انہوں نے جو محیر العقول کہانی سنائی ہے، اُس کے سب کردار تو اصلی ہیں اور زمین پر موجود بھی ہیں،لیکن اُن کرداروں کے ہاتھوں میں جس طرح جج ارشد ملک ایک کھلونا بنے رہے ہیں، وہ اس کہانی کا ایسا بے تکا اور بدنما حصہ ہے کہ ہضم ہونے میں نہیں آ رہا۔

مزید :

رائے -کالم -