جنگوں کے مبارک اثرات (2)
جب برصغیر تقسیم ہوا تو برٹش انڈین ملٹری بھی تقسیم ہو گئی۔ پہلے بیان ہو چکا کہ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے تولیدی کارخانے (آرڈننس فیکٹریاں) بھارت میں تھے۔ چنانچہ پاکستان کو صرف فوج کی افرادی قوت ہی مل سکی۔ اس قوت کا اسلحہ اور ساز و سامان بھارت کے اسلحہ ڈپوؤں میں تھا جو تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بھارت نے وہ تمام ساز و سامان افواج پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا۔ ہمارے حصے میں صرف ایک تدریسی ادارہ آیا جو کوئٹہ کا کمانڈ اینڈ سٹاف کالج تھا۔ لہٰذا پاکستان کی تینوں افواج کو صرف نہتے ٹروپس ہی حصے میں مل سکے۔ ایک عام سی فوجی رائفل بنانے کے لئے بھی پاکستان کو واہ کینٹ میں اپنی نئی آرڈننس فیکٹری بنانا پڑی۔ بھاری ہتھیاروں مثلاً ٹینک، توپ، بکتر بند گاڑی، ہوائی جہاز، بحری جہاز اور ان کے اسلحہ جات وغیرہ سب کے سب از سر نو تشکیل و تولید کرنے پڑے۔ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا، پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ اور کراچی شپ یارڈ وغیرہ سب کے سب 1947ء کے بعد تعمیر و تشکیل کئے گئے۔ یہی وجہ تھی کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کو یقین تھا کہ فوجی اعتبار سے نہتا پاکستان کب تک قائم رہ سکے گا اور بہت جلد اسے اکھنڈ بھارت کا حصہ بننا پڑے گا۔ تاہم یہ صرف پاکستانی عوام کا جذب و جنوں اور عزمِ صمیم ہی تھا جس نے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے آپ کو سنبھالا اور صفر سے آگے کی گنتی کا آغاز کیا۔
اقتصادی لحاظ سے بھی پاکستان کی ٹکسال خالی تھی۔ کوئی ایسی معدنی دولت بھی پاس نہ تھی جس کو بیچ کر زرِ مبادلہ حاصل کیا جا سکتا اور انتہائی ضروری انفراسٹرکچرکھڑا کیا جا سکتا اور ناگزیر ضرورتیں پوری کر لی جاتیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی عسکری اور اقتصادی کمزوری روزِ اول سے ظاہر و باہر تھی۔
گزشتہ قسط میں عرض کیا جا چکا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والی تمام افواج کا اسلحہ اور گولہ بارود یورپ اور امریکہ میں بنایا جاتا تھا۔ اس جنگ کے آخری دنوں میں سینکڑوں ٹینک، طیارے اور توپیں روزانہ کی بنیاد پر تباہ ہوتی تھیں لیکن اگلے روز فوج کو نئے ہتھیار مل جاتے تھے۔ جب اگست 1945ء میں جوہری بم نے یہ جنگ ختم کی تو طرفین کے پاس ہزاروں کی تعداد میں بھاری اسلحہ جات اور ان کا گولہ بارود فوجی سٹوروں میں موجود تھا جس کو تلف کرنا پڑا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور دوسرے وہ ممالک جو شریکِ جنگ تھے ان کا سرپلس اسلحہ بھی کسی نہ کسی طور ٹھکانے لگانا پڑا۔ صرف برصغیر ایک ایسا بدنصیب خطہ تھا جس کے افرادکو برطانیہ نے اپنے ہاں بننے والے بھاری ہتھیاروں سے لیس کیا، ان کو مختلف محاذوں پر استعمال کیا اور جب جنگ ختم ہوئی تو وہ سارا اسلحہ واپس لے لیا۔
دوسری عالمی جنگ وسط اگست 1945ء کو ختم ہو گئی تو برطانوی حکومت کو اس لئے برصغیر سے رخصت ہونا پڑا کہ ان کو 1857ء کی جنگ آزادی میں اپنا حشر یاد تھا۔ انگریز نے سوچا کہ اگر 90برس پہلے ہندوستانیوں میں حصولِ آزادی کا جذبہ اس قدر شدید تھا تو اب 1945ء میں تو ان کے پاس ایک طرح کی جدید جنگ آزمودہ فوج تھی۔علاوہ ازیں انگریز نے یورپی، افریقی اور ایشیائی محاذوں پر (برما، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید وغیرہ) ”دیسی سپاہ“ کی قوتِ حرب و ضرب کا مظاہرہ دیکھ لیا تھا۔ چنانچہ اس نے برصغیر سے نکل جانے میں عافیت جانی۔
انگریز کو یہ بھی معلوم تھا کہ جنگ میں استعمال ہونے والے سارے بھاری ہتھیاروں کے کارخانے تو ان کے اپنے ملک ہی میں تھے۔ اس لئے اس نے سوچا کہ نہتی نفری کو یہ دونوں ممالک (انڈیا اور پاکستان) کب تک لئے بیٹھے رہیں گے۔ ان کو اپنی عسکری افرادی قوت کو مسلح کرنے کی ضرورت تو ہرحال میں پیش آئے گی اور وہ ان کے سامنے دامن پھیلائیں گے اور اس طرح اس فیلڈ میں ان نو آزاد ملکوں کی محتاجی ”سدا بہار“ ہوگی!…… چنانچہ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ 73 برس گزر جانے کے بعد بھی ان کی ٹکسالیں ہیں اور ہمارے کشکول ہیں! پاکستان نے اگرچہ جوہری استعداد حاصل کر لی ہے لیکن جوہری جنگ سے پہلے روائتی جنگ سے عہدہ برآ ہونا ایک فطری مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے لئے پاکستان آج بھی ان طاقتوں کا دست نگر ہے جو روائتی جنگ کے اسلحہ جات بناتی ہیں۔ ہم اگرچہ آج اپنی افواجِ سہ گانہ کا اسلحہ اور بارود کافی حد تک خود بناتے ہیں لیکن ترقی یافتہ ملکوں کی ہمسری نہیں کر سکتے۔ ہماری یہ محدودیت (Limitation) آنے والے دور میں ہمیشہ برقرار رہے گی۔
دوسری طرف انڈیا، ہم سے چار پانچ گنا بڑا ملک تو ہے لیکن امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں نے اسے چار پانچ گنا بڑے غنیم کے سامنے صف بند بھی کر دیا ہے۔ نریندر مودی کو چونکہ ساختہ ء ہند (Made in India) سلوگن کا بڑا شوق ہے۔ اس لئے روس، امریکہ اور اسرائیل نے اسے یہ لالی پاپ دیا ہوا ہے کہ ہم آپ کے دشمنوں (چین اور پاکستان) کے خلاف آپ کو مسلح کرنے میں کوئی ”دقیقہ فرو گزاشت“ نہیں کریں گے۔ انہوں نے انڈیا کو ٹاپ آف دی لائن، بھاری اور ہلکے اسلحہ جات بھارت ہی میں بنانے کے کارخانے لگانے کی راہ پر ڈال دیا ہے۔
لیکن لالہ جی کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو وار ٹیکنالوجی ترقی یافتہ ملکوں نے اپنے کروڑوں سویلین آبادیوں اور فوجی سپاہیوں کو گزشتہ صدی کی جنگوں میں ہلاک کروا کے حاصل کی ہے وہ انڈیا کو کیسے منتقل کی جا سکتی ہے؟ اگر روس نے اپنے T-90 ٹینکوں کو بھارت میں بنانے کا کارخانہ لگا دیا ہے یا امریکہ نے اپنے کسی ایف۔16طیارے کو انڈیا میں پروڈیوس کرنے کی فیکٹری لگا دی ہے (یا مستقبل میں لگا دینے کی پیشکش کی ہے) تو اس پر لالہ جی کو اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ترقی یافتہ ملکوں کے مستقبل کی خوشحالی کا دار و مدار ہی جب سٹیٹ آف دی آرٹ اسلحہ جات کی پروڈکشن پر ہے تو وہ لوگ یہ سب ٹیکنالوجی انڈیا کو دے کر اپنے ہاتھ کٹوانے کی حماقت کیسے کر سکتے ہیں؟ وار ٹیکنالوجی کے سینکڑوں ہزاروں تکنیکی راز ایسے ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں نے نجانے کتنے کتنے اور کیسے کیسے پاپڑ بیل کر حاصل کئے ہوئے ہیں۔ وہ راز اتنی آسانی سے انڈیا کو کیسے منتقل کئے جا سکتے ہیں؟…… ہاں وہ لوگ انڈیا میں فیکٹریاں ضرور لگا دیں گے، اپنے بھاری اسلحہ جات کے مشابہ اسلحہ بھی ان میں ضرور پروڈیوس ہونے لگے گا لیکن اس اسلحہ کی کارکردگی ویسی نہیں ہوگی جیسے ان کی اپنی فیکٹریوں سے نکلنے والے اسلحہ جات کی ہوگی…… مغرب کی صدہا برس کی جنگوں نے مغرب کو یہی سکھایا ہے کہ اپنی شمشیر و سناں کو دشمن کی شمشیروسناں کے مقابلے میں زیادہ کارگر، زیادہ بہتر اور زیادہ موثر رکھو۔ انڈیا کی GDPچونکہ ایک طویل عرصے سے بہت مثبت چلی آ رہی تھی اس لئے ترقی یافتہ ممالک کی حریص نگاہیں انڈین ٹکسال پر مرکوز تھیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے انڈیا کو پہلے انڈو۔ پاک بریکٹ سے الگ کیا اور پھر انڈو۔ چائنا بریکٹ کے جھانسے میں اس طرح پھنسایا کہ اس کا ایک آرمی چیف یہ بیان دینے تک آ گیا ہے کہ انڈیا بیک وقت اپنے دونوں حریفوں (چین اور پاکستان) سے نمٹ سکتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا!
جب سے لداخ کے مسئلے پر انڈیا اور چین کے درمیان سٹینڈ آف چل رہا ہے، روس اور امریکہ دونوں ”خم ٹھونک کر“ میدان میں آ چکے ہیں۔ کل کی خبر تھی کہ بھارتی حکومت نے روس سے 33عدد جنگی طیاروں کی فوری خرید کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے علاوہ 59عدد طیاروں کو اپ گریڈ کروانے کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ اس کے لئے حکومت نے 2.4ارب ڈالر کی فوری منظوری دے دی ہے۔ اس سے پہلے 2018ء میں انڈیا روس سے S-400 ائر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ بھی کر چکا ہے۔ (اس سسٹم کی کافی تفصیلات میڈیا پر آ چکی ہیں) یہ معاہدہ 5.43ارب امریکی ڈالر کا ہے۔ دوسری طرف امریکی بھی خاموش نہیں بیٹھے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس اور چین کی آپس میں گاڑھی دوستی ہے اس لئے روس، انڈیا کو جو S-400دے گا اس کی تاثیر محلِ نظر ہو گی…… سٹاک ہوم میں قائم انٹرنیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گزشتہ 10برسوں سے انڈیا عالمی اسلحہ مارکیٹ میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار چلا آ رہا ہے۔ سوویٹ دور ہی سے بھارت، ماسکو سے بھاری اسلحہ کی خریداری کے ضمن میں پیش پیش رہا ہے۔ 2000ء سے لے کر اب تک انڈیا نے روس سے 35ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے۔ انڈیا کا طیارہ بردار بحری جہاز وکرما دیتہ ہو، اس پر رکھے جانے والے مگ۔29 طیارے ہوں، جوہری آبدوز ”جکڑ“ ہو، ٹی۔90اور ٹی۔72 مین بیٹل ٹینک ہوں یہ سب کے سب روسی نژاد ہیں۔ روس نے ہندوستان ایروناٹیکل کمپلیکس (HAL) کو SU-30MKI طیارے بنانے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کے واحد سپرسانک کروز میزائل ”براہموس“ کی تشکیل و تعمیر و تولید میں بھی روس نے اہم رول ادا کیا ہے۔
دوسری طرف بھارت نے امریکہ اور اسرائیل سے بھی جدید ترین اسلحہ جات کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے۔ فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری کی خبریں تو قارئین ایک عرصے سے میڈیا پر دیکھ اور پڑھ چکے ہیں۔ امریکہ نے انڈیا کو C-17 اور C-130J ہیوی ائر لفٹ طیارے بھی فراہم کئے ہیں اور ان کی مزید فراہمی جاری ہے۔ اس طرح چنوک ہیلی کاپٹر کی اڑانیں بھی لیح (Leh) اور دولت بیگ اولدی میں گزشتہ دو تین ہفتوں سے مسلسل دیکھی جا رہی ہیں۔
اندریں حالات، ایک مغربی مبصر کا یہ دعویٰ کچھ ایسا بے وزن معلوم نہیں ہوتا کہ: ”چین نے لداخ کا مسئلہ کھڑا کرکے امریکہ اور روس دونوں کی مدد کی ہے۔ انڈیا نے امریکی اور رشین اسلحہ جات کی خریداری میں جس عجلت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس تیزی سے واشنگٹن اور ماسکو کے خزانوں میں اضافہ کیا ہے وہ کورونا کے اس ”موسم“ میں ممکن نہ تھا“……
جنگوں کے یہی مثبت اور مبارک اثرات ہیں جو ان کی تباہی اور بربادی کے علی الرغم وقفے وقفے سے کھل کر سامنے آتے رہتے ہیں!!(ختم شد)