ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کے تحفظات کو دورکئے جائیں، نجیب اللہ احمدزئی
پشاور(سٹی رپورٹر)سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجینئر مقصود انور پرویز نے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ کسٹمز ڈیوٹیز اور ٹیرف پر نظرثانی کرکے کمی لائی لائیں۔ بارڈرز کے دونوں اطراف میں بزنس کمیونٹی کو سہولیات کی فراہمی کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ 2011 کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے تاجروں ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کے تحفظات کو دورکئے جائیں اور نئے معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ دونوں ہمسایہ ممالک دیگر معاملات کو ایک طرف رکھ کر باہمی تجارت ٹرانزٹ ٹریڈ کے فروغ کے لئے مشترکہ اقدامات اٹھائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل نجیب اللہ احمد زئی کے دورہ سرحد چیمبر کے دوران ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سرحد چیمبر کے سینئر نائب صدر شاہد حسین نائب صدر عبدالجلیل سابق صدور زاہداللہ شنواریفیض محمد فیضی سابق سینئر نائب صدر ضیا الحق سرحدی سابق نائب صدر شجاع محمد عابد اللہ خان یوسفزئی افغان کمرشل اتاشی فواد آرش ممبر افغان کمرشل اتاشی حمید فاضل خیل فسٹ سیکرٹری افغان قونصلیٹ پشاور غلام حبیب پروٹوکول آفیسر جوری ایگزیکٹو کمیٹی ممبران محمد نعیم بٹ آفتاب اقبال مجیب الرحمان احسان اللہ غلام بلال جاوید شمس الرحیم اورصدر گل راشد اقبال صدیقی کوہاٹ انڈسٹریل سٹیٹ ایسوسی ایشن کے صدر عارف وحید اعوان صنعت کار ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اجلاس کے دوران موجود تھے۔ سرحد چیمبر کے صدر انجینئر مقصود انور پرویز نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یکساں مذہب زبان اور ثقافت کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ قریبی اور مضبوط رشتہ قائم ہے تاہم دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین باہمی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے جس کو بڑھانے کے لئے پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو مشترکہ اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ دونوں ہمسایہ ممالک دیگر معاملات کو ایک طرف رکھ کر باہمی تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لئے مشترکہ کوشش کریں اور پاک افغان بزنس کمیونٹی کوسہولیات کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کی بندرگاہ پر 100 فیصد پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور ایکسپورٹ کنٹینرز / ٹرکوں کی سکینگ آپٹا معاہدہ 2011 کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے تحت صرف 20 فیصد سکینگ کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک افغان باہمی تجارت کا حجم 2.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر ایک ارب ڈالر تک آچکا ہے جس کو بڑھانے کے لئے دونوں حکومتوں کو پیچیدہ قوانین کا خاتمہ پالیسیوں میں نرمی لانے کے ساتھ ساتھ کسٹمز ڈیوٹیز اور ٹیرف میں کمی لانا ہوگی۔ افغان قونصل جنرل نجیب اللہ نے سرحد چیمبر اور بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا ہے کہ افغان حکومت ایکسپورٹرز اور امپورٹرز سے مسائل کے فوری حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ دیرپا تجارتی ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کا ملک سیاست کو کبھی بھی تجارت کے ساتھ نہیں جوڑے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ہمسایہ ممالک ایک مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے پاک افغان بزنس کمیونٹی کے مشکلات کو حل کئے جائیں۔ انہوں نے افغان حکومت پاکستان ایکسپورٹرز امپورٹرز کو ہر قسم کی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ بزنس کمیونٹی کے مسائل کے حوالے سے آئندہ ماہ طورخم بارڈرز پر اجلاس منعقد کیا جائے۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان باہمی تجارت کے حجم کے بتدریج کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سرحد چیمبرکے سابق صدور زاہداللہ شنواری فیض محمد فیضی سابق سینئر نائب صدر ضیا الحق سرحدی ایگزیکٹو ممبران نعیم بٹ آفتاب اقبال مجیب الرحمان اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں میں کسٹمز ڈیوٹیز اور ٹیرف میں کمی لانے کے ساتھ پیچیدہ قوانین اورپالیسیوں کے خاتمہ کا مطالبہ کیا ہے۔ زاہداللہ شنواری نے تجویز پیش کی کہ کہ سنٹرل کوآرڈی نیشن کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ پاک افغان بزنس کمیونٹی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ غلام خان خرلاچی اور انگور اڈہ کے سرحدوں کے ذریعے تجارت کی بحالی خوش آئند اقدام ہے لیکن ان بارڈرز پر ری فنڈز اور ری بیٹ جیسی سہولیات نہ ہونے کے باعث حکومتی اقدام سودمند ثابت نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ پر نظرثانی کا مطالبہ کیا اور بارڈرز کے دونوں جانب کی بزنس کمیونٹی کے خدشات اور تحفظات کو دور کرکے نیا معاہدہ تشکیل دینے پر زور دیا۔