یادش بخیر یہ ہماری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ پاک پتن میری جنم بھومی ہے۔ میرے آباؤ اجداد وہیں مدفون ہیں۔ آج یہ شہر ایک ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہے۔ ایک سے زیادہ کالج موجود ہیں۔ طالبات کا کالج الگ ہے۔ لیکن میرے طالب علمی کے زمانے میں یہاں ایک ہی ہائی سکول تھا جو گورنمنٹ ہائی سکول کہلاتا تھا۔
آبادی برائے نام تھی۔1947ء کے بعد انڈیا سے بہت سے مہاجرین یہاں آکر آباد ہو گئے۔ آبادیاں بڑھنے لگیں لیکن کسی نے بھی اس بڑھتی آبادی کی تعلیم و تربیت میں وہ کردار ادا نہ کیا جو ہم مسلمانوں کا ورثہ تھا…… پاکستان بن گیا تو ہم ”پاک لوگ“ کہلانے لگے۔ اس کے آگے تو بس اللہ ہی کافی تھا۔
ریلوے، ہائی سکول، ہسپتال، ڈاکخانہ، سڑکیں، بازار، دکانیں صرف اور صرف برطانوی دور کی عطا تھیں۔ ہر سال انہی محرم کے ایام میں حضرت بابا فرید کا سالانہ عرس ہوا کرتا تھا۔ برصغیر سے ہزاروں لوگ یہاں آکر جمع ہوجاتے تھے۔ یہ بھیڑ اور یہ ہجوم 15دنوں تک رہتا تھا۔(25ذی الحج سے لے کر 10محرم تک) اور یہ بابا فرید کے سالانہ عرس کے ایام تھے۔
سارے پاک پتن میں بجلی نہیں ہوتی تھی۔ یہ بجلی 1960ء کی دہائی میں آئی۔ ہم نے میٹرک، ایف اے اور بی اے لالٹینوں کی روشنی میں کیا۔ صرف ایک چھوٹا سا بجلی گھر ہوتا تھا جو ریلوے سٹیشن کو بجلی مہیا کرتا تھا اور اسے بھی ’کافر‘انگریزوں نے بنایا تھا۔ ہمارا اس میں کوئی حصہ نہ تھا۔
پھر جب بجلی آ گئی تو ہمارے سکول کے اردو زبان کی نصابی کتاب میں ایک مضمون تھا جس کا عنوان تھا: ”آسمانی بجلی“…… کلاس ہشتم میں ہمارے اردو کے ٹیچر مولوی عبدالعزیز صاحب نے بتایا کہ آسمانی بجلی کو ”برق‘ بھی کہا جاتا ہے۔ پھر علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا:
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
ساون اور بھادوں بارشوں کے مہینے ہوا کرتے تھے۔ اس میں برق بھی گرتی تھی اور لوگ مارے بھی جاتے تھے۔ہم لوگ کالی چھتری لے کر سکول نہیں جاتے تھے مبادا اس پر بجلی آن گرے۔ اس آسمانی بجلی کے خوف کا ازالہ بھی ”کافر انگریزوں“ نے کیا…… یہ کہانی اگرچہ پرانی ہے لیکن بقولِ شاعر:
مرا معنیء تازۂ مدعا ست
اگر گفتہ راباز گوئم روا ست
(میرا مقصد تازہ مضمون لانا ہے۔اگر کہے ہوئے کو دوبارا کہہ دوں تو اس میں کیا ہرج ہے)
ہم 300سال پہلے وارث شاہ کا تصنیف کردہ قصہء عشق و عاشقی ہی دہراتے رہے ہیں اور آج بھی اسی ڈگر پر قائم ہیں۔ ہم ویسے تو جوہری ملک بن چکے ہیں لیکن نیو کلیئر سائنس کا موضوع آج بھی ایم ایس سی (MSC) کیمسٹری، فزکس اور بیالوجی میں ڈھونڈتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم اگر دساور سے یہ ”جوہری نسخہ“ چرا کر نہ لاتے تو ہم نے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا کب ماننا تھا؟ بھٹو کو شاید اسی جرم کی سزا دی گئی…… واللہ اعلم!
آیئے آسمانی بجلی (برق) سے آغاز کرتے ہیں۔
ہر شخص نے بجلی کا طوفان دیکھا ہے۔ جس میں چمک اور گرج دونوں ہوتی ہیں۔ کبھی یہ بارش سے قبل ہوتا ہے اور اکثر اس وقت ہوتا ہے جب گرد و غبار آسمان پر زیادہ ہو یا آندھی آتی ہو۔ بارش سے قبل کا اکثر خطرناک ہوتا ہے اور بجلی گرنے کے حوادث اکثر ہوتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہو یا ہو چکی ہو تو بھی یہ طوفان دیکھنے میں آتا ہے۔ مگر بجلی گرنے کا حادثہ کم ہوتا ہے۔ابتدائی قومیں جن کی دماغی قوتوں کی نشوونما اور تربیت کم ہوتی تھی۔وہ ہر مظہر قدرت کو دیوتا سمجھتی تھیں اور بجلی کو اکثر پوجتی تھیں۔ یہاں تک کہ قرون وسطیٰ کے یورپ میں خیال پیدا ہو گیا تھا کہ گرجوں کے اگر گھنٹے بجائے جائیں تو طوفان ٹل جائے گا اور جب طوفان آتا تھا تو گھنٹے بجائے جاتے تھے۔ چنانچہ یورپ کے کسی گاؤں میں اسی طرح طوفان آیا اور تمام گاؤں کے لوگوں نے رسیاں پکڑ کر گرجے کے گھنٹے بجانا شروع کئے۔ اتفاق سے اسی وقت بجلی گرجے پر گری اور یہ سب فنا ہو گئے۔ یہ محض جہالت کا سبب ہے۔ ہندوستان میں بھی لوگ بجلی کے متعلق عجب عجب توہمات رکھتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ سیاہ یا سرخ کپڑے پر بجلی زیادہ گرتی ہے۔ بعض کی رائے میں کالے سانپ پر یا دودھ والے جانور پر گرتی ہے۔ نیز اس شخص پر جو الٹا پیدا ہوا ہو یا جس کی جیب میں کنجیاں یا چاقو یا اور دھات کی چیز ہو۔ اسی طرح اور لغو خیالات بھی عوام میں پھیلے ہوئے تھے۔ درجِ ذیل سطور میں ہم سائینٹفک وجہ بجلی کے طوفان کی سمجھائیں گے اور پھر یہ بھی بتائیں گے کہ بجائے گھنٹے وغیرہ بجانے کے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے مکان اور جان محفوظ رہ سکیں۔
سب سے پہلے ایک امریکن سائنسدان بنجمن فرینکلن نے 1752ء میں یہ دریافت کیا کہ مصنوعی بجلی یعنی وہ جورگڑ سے پیدا ہوتی ہے یا مشین وغیرہ سے تیار ہوتی ہے اور آسمانی بجلی ایک ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ مطیع ہے اور ہم اسے بنا سکتے ہیں اور قابو میں رکھ سکتے ہیں اور یہ آسمانی نہ ہمارے قابو کی ہے اور نہ اس پر ہم نے اب تک اپنا اثر جمایا ہے بلکہ کبھی کبھی یہ ہم کو ہلاک بھی کر دیتی ہے۔ سب سے پہلے اس نے ایک پتنگ ریشمی کپڑے کا بنایا۔ اس پر ایک تانبے کا تار لگا کر اور ایک ڈور باندھ کر اس پتنگ کو آسمان پر چڑھا کر نیچے ایک ریشمی رومال سے اسے پکڑا اور ڈور میں ایک کنجی بھی باندھ دی۔ جب کنجی کے پاس کوئی ہاتھ لے جاتا تھا تو چنگاریاں نکلتی تھیں۔ اسی ڈور سے اس نے اپنا لیڈنی مرتبان (Lyeden Jar)بھر لیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ اس بجلی میں جو زمین پر ہے اور اس میں جو آسمان پر ہے کچھ فرق نہیں ہے۔ یہ نظریہ فرینکلن نے انیسویں صدی کی ابتداء میں معلوم کر لیا تھا اور اسی بناء پر اس نے برق رہا (Lightning Conductor) بنایا، جو مکانوں، برجیوں اور مناروں پر لگایا جاتا ہے۔ ایک روسی پروفیسر اسی قسم کا تجربہ کرنے میں ہلاک ہو گیا کیونکہ اس نے اس ریشمی رومال کی احتیاط نہیں کی تھی جو فرینکلن نے اپنے ابتدائی تجربے میں کی تھی۔
یہ اٹھارویں صدی ہی میں معلوم ہو گیا تھا کہ بادلوں میں دو قسم کی بجلی ہوتی ہے۔ ایک کا ”مثبت“ دوسری کا ”منفی“ نام رکھا گیا۔ رسماً یہ مان لیا گیا کہ مثبت سے منفی کی طرف بجلی رواں ہوتی ہے یا یوں سمجھئے کہ جس طرف سے بجلی آتی ہے، اس کا نام مثبت رکھا ہے اور جدھر جاتی ہے، اس کا نامی منفی رکھا ہے۔مقناطیس کے مانند غیر جنس بجلی ایک دوسرے سے ملنے کی کوشش کرتی ہے اور ہم جنس سے گریز کرتی ہے۔ یعنی دو تار مثبت کے برابر رکھ دیں تو ایک دوسرے کو دھکیلیں گے اور ان کی بجلیاں آپس میں نہیں ملیں گی، مگر جب مثبت اور منفی برابر رکھ دیئے جائیں تو بجلی کی کوشش ہوگی کہ بیچ میں ہوا کو توڑ کر ایک دوسرے سے مل جائیں۔اس میل کے وقت ایک قسم کا شعلہ پیدا ہوتا ہے اور سناٹے کی آواز آتی ہے۔لیبارٹری (Laboratory)میں ومسہریٹ (Whimshurst) مشین ایک عام چیز ہے۔ اس میں سے کئی کئی انچ لمبا شعلہ نکل سکتا ہے اور شاید ہی دنیا میں کوئی بجلی کا طالب علم ہوگا جس نے نادانستگی میں اس کے تار کا جھٹکا نہ کھایا ہو۔ اس مشین میں کئی ہزار وولٹ پیدا ہوتے ہیں مگر چونکہ اس میں روکم ہوتی ہے اس لئے آدمی نہیں مرتا۔ بادلوں میں بھی یہی دو قسم کی بجلی پائی جاتی ہے۔ جب ایک بادل دوسرے (مختلف قسم کی بجلی کے) بادل کے قریب آ جاتا ہے تو ایک میں سے بجلی دوسرے میں بھر جاتی ہے اور چمک پیدا ہوتی ہے۔ بعض اوقات اس کے ساتھ جو سناٹا ہوتا ہے وہ دوری کی وجہ سے اور اس کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہم نہیں سن سکتے اور بعض وقت جب یہ سناٹا زور کا ہو تو گرج ہم کو سنائی دیتی ہے۔ ایسی بجلی جو ایک بادل سے دوسرے بادل میں سرایت کرے اسے برق شیٹ (Sheet Lightning)کہتے ہیں۔ (جاری ہے)