وزیر اعلیٰ پنجاب کو جیل سمیت دیگر اداروں میں  ہونیوالی ناانصافیوں کا نوٹس لینا چاہیے

Jul 15, 2024

یونس باٹھ

 پنجاب حکومت نے یکم جولائی کو 3ڈی آئی جیز جیل خانہ جات کے تبادلے کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر نئی تعیناتی کی جگہ چارج لینا کا حکم دیا تھا۔ تبدیل ہونے والے افسران میں رانا رضااللہ، محسن رفیق اور کامران انجم شامل تھے۔ان میں سے ایک ڈی آئی جی رانا رضااللہ نے تو اپنی ذمہ داریاں سنبھال کر کام بھی شروع کردیا ہے جبکہ پہلے سے تعینات ڈی آئی جی ملتان محسن رفیق نے چارج چھوڑنے سے انکار کردیا ہے۔اس طرح ملتان جانے والے ڈی آئی جی کامران انجم تاحال چارج نہیں لے سکے۔ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ریجن کی آسامیاں تعیناتی کے حوالے سے پہلے ہی خالی پڑی ہیں۔ڈیرہ غازی خان کا چارج ملتان ریجن کے ڈی آئی جی محسن رفیق کو جبکہ بہاولپور ریجن کا چارج ساہیوال ریجن کے ڈی آئی جی شوکت فیروز کو سو نپا گیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی محسن رفیق نے سیکرٹری ٹو سی ایم کو فون کرکے اپنا تبادلہ رکوالیا ہے اور ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بہاولپور نہیں جارہے۔ہونا تو یہ چاہیے اگر پنجاب حکومت انہیں بہاولپور نہیں بھجوانا چاہتے تو ڈی آئی جی کامران انجم کی بہاولپور ریجن میں تعیناتی کردی جاتی۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ تبادلوں کے حوالے سے ہر طرح کی مداخلت بند کردی گئی ہے۔اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کی بات درست تسلیم کرلی جائے تو ڈی آئی جی ملتان محسن رفیق نے تاحال چارج کیوں نہیں چھوڑا،بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بیوروکریسی منہ زور ہے اور وہ پنجاب حکومت کو ناکام بنانا چاہتی ہے۔یہ ہی نہیں پنجاب حکومت نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ سمیت محکمہ جیل خانہ جات کے تین سپرنٹنڈنٹ صاحبان کے تبادلوں کے احکامات جاری کرتے ہوئے اڈیالہ جیل میں سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم کو تعینات کیا ہے۔اڈیالہ جیل میں تعینات ہونیوالے سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم کا پروفائل شکایات اور بدعنوانیوں سے بھرا پڑاہے۔اس کی تعیناتی بھی بیوروکریسی کی وجہ سے عمل میں لائی گئی ہے۔گزشتہ سال جنوری میں جب ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں ہنگامہ آرائی ہوئی تو موصوف اس وقت وہاں جیل سپرنٹنڈنٹ تعینات تھے۔ قیدیوں اور حوالاتیوں نے جیل انتظامیہ کے ناروا سلوک سے تنگ آکرگجرات ڈسٹرکٹ جیل میں ہنگامی آرائی کرتے ہوئے بیرکوں میں توڑ پھوڑ کی اور گوداموں، بیرکوں کو آگ لگا دی تھی۔ قیدیوں نے جیل کے ایک حصے پر قبضہ کرکے اہلکاروں سے اسلحہ چھین لیا تھا۔نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کروائی گئی جس میں موصوف سپرنٹنڈنٹ گنہگار قرار پائے جس پر جیل سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم سمیت 11 اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا۔یہ مقدمہ گزشتہ سال 2جولائی کو  انکوائری رپورٹ کے بعد تھانہ سول لائن میں جیل سپرنٹنڈنٹ عبدا غفور انجم، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سرمد حسین، 2 اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سمیت 11 اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا۔ مقدمے میں جیل اہلکاروں پر طاقت کے غلط استعمال، غفلت، بدعنوانی اور ہنگامہ آرائی پر قابو پانے میں ناکامی کی دفعات لگائی گئیں۔صرف گجرات جیل میں ہی نہیں ان پر دیگر جیلوں میں بھی مبینہ طور پر بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ اس افسوس ناک واقعہ کے بعد یہ سوچابھی نہیں جاسکتا کہ ایسے آفیسرز کو ادارے میں رہنے کا حق مل پائے گا لیکن یہاں سب چلتا ہے۔ایسے آفیسرز کا انکوائریوں میں بے گناہ ہوجانا بھی کوئی نئی بات نہیں،پھر پوسٹنگ تو ایسے آفیسرز کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ایسے آفیسرز جب اور جہاں چاہیں پوسٹنگ کروالیتے ہیں۔دوسری جانب اگر وہاں سے تبدیل ہونے والے سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ کی مجموعی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ کی تعیناتی کبھی بھی سیاسی بنیادوں پر عمل میں نہیں لائی گئی وہ محکمہ جیل خانہ جات میں ایک اچھے کمانڈر کے ساتھ ایماندار آفیسرز کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔انہیں پنجاب کی مختلف سنٹرل  جیلوں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے انہیں جب بھی کسی جیل پر تعینات کیا گیا،اس جیل میں بے ضابطگیوں یاقیدیوں کی جانب سے رشوت لینے یا جیل میں ہنگامہ آرائی جیسی شکایت سامنے نہیں آئیں۔وہ ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسرز کے بیٹے ہیں اور ہمیشہ اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں۔اس دوران تیسرے تبدیل ہونے والے سپرنٹنڈنٹ ساجد بیگ ہیں جنہیں سنٹرل جیل ساہیوال سے تبدیل کرکے سنٹرل جیل فیصل آباد سپرنٹنڈنٹ عبدالغفورانجم کی جگہ لایا گیا ہے وہ بھی انتہائی اچھی شہرت کے حامل آفیسرز ہیں انہیں بھی پنجاب کی مختلف سنٹرل جیلوں میں کام کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔ساجد بیگ کوجہاں بھی تعیناتی دی گئی ہمیشہ بہترین کمانڈر قرار پائے۔ اگر پنجاب حکومت نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرہی لیا تھا تو سپرنٹنڈنٹ ساجد بیگ کو وہاں تعینات کرنا قرین انصاف تھا۔جیل انتظامیہ کے ایک سینئر آفیسرز نے بتایا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب کو اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے بارے میں سابقہ رپورٹس کا علم نہیں ہو گا کیونکہ وزیر اعلی پنجاب کسی صورت بھی ایسے آفیسرز کی تعیناتی عمل میں نہیں لا ئیں گی جو حکومت کے لیے بیڈ گورننس کا باعث بنے۔دوسری جانب ادارے کے کمانڈر پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ آفیسرز کی تعیناتی کے بارے میں حکومت کو اصل حقائق سے آگاہ کریں۔خبر ہے کہ پنجاب پولیس کے 45افسران و اہلکار منشیات کی سمگلنگ میں ملوث اور سہولت کا ر نکلے ہیں۔سب سے زیادہ سب سے چھوٹے ضلع پاکپتن کے 14اہلکار،مظفر گڑھ کے 8  اٹک 7گوجرانوالہ6روالپنڈی،لاہور،بہاولپور، خانیوال، رحیم یار خان اور حافظ آباد کے ایک ایک اہلکار کا نام شامل ہے۔یہ بھی خبر ہے کہ تمام اضلاع کی 117دن کی حتمی پرفارمنس رپورٹس وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کی گئی ہیں۔جس میں لاہور کا 35واں نمبر ہے۔ منڈی بہاؤالدین پہلے،حافظ آباد دوسرے اور ننکانہ تیسرے نمبر پر رہے،وزیر اعلی پنجاب  کے 32 اینشیٹوپر عملدرآمد اور اضلاع کی سکورننگ مارچ میں شروع کی گئی۔پرفارمنس مینجمنٹ کمیٹی کو کو تقابلی جائزہ کا ہدف دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق لاہور کی انتظامیہ نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر 100میں سے 58نمبر حاصل کیے لاہور کی انتظامیہ58نمبر کیساتھ ریکنگ میں 35نمبر پر رہی،تاہم ڈرگ مافیا زکے خلاف آپریشن میں لاہور پولیس پہلے نمبر پررہی اور اس کا سہرا سی سی پی او کے ساتھ آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے سربراہ ڈی آئی جی عمران کشور کو قرار دیا گیا ہے۔

مزیدخبریں