معاشی ترقی.... بذریعہ سمیڈا

معاشی ترقی.... بذریعہ سمیڈا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ دُنیا جو اللہ نے اس کرہ¿ ارض پر آباد کر رکھی ہے اس کا دارومدار معیشت پر ہے۔ اللہ نے زمین پر جگہ جگہ وسائل پھیلا رکھے ہیں۔ کہیں معدنیات ہیں تو کہیں اجناس، کہیں دھاتیں ہیں تو کہیں پتھر، کہیں سمندری حیات سے بھرے سمندر ہیں تو کہیں پھولوں، پھلوں اور سبزیوں سے لدے میدان۔ یہ اسباب ہیں۔ زندگی کے اور انہیں مسخر کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے۔ انہیں کیسے استعمال میں لانا ہے۔ طریقے اپنی کتابوں میں لکھ بھیجے ہیں اور پھر ہر انسان کو وہ مشین بھی عطا کر رکھی ہے، جو از خود طریقے وضع کرتی ہے ۔ وہ مشین ہے دماغ.... اور دماغ کا مشیر اعلیٰ ہے دل۔
دل و دماغ کوحاضر ناظر کر کے جو قومیں اس کرہ¿ ارض پر وسائل خداوندی کو مو¿ثر انداز سے بروئے کار لا رہی ہیں۔ وہ قطع نظر رنگ و نسل اور دین و مذہب معاشی ترقی کی منزلیں سر کرتی چلی جا رہی ہیں۔ ثابت ہوا کہ معیشت وسائل کے موثر استعمال کا نام ہے اور یہ کلیہ، ملتوں، قوموں، طبقوں اور افراد پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔
ہم بحیثیت قوم معاشی بدحالی کا شکار ہیں، کیونکہ بحیثیت فرد کم ہمتی ار کم حوصلگی کے چنگل میں پھنسے ہیں۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں، مگر وسائل کے صحیح اور درست استعمال کا انحطاط ہے۔

جب مسلم لیگ(ن) کے سابقہ دور اقتدار میں خواجہ بلال نے سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز ویلپمنٹ اتھارٹی ”سمیڈا“ کی بنیاد رکھی تو کسی صحافی نے ان سے پوچھا کہ پہلے سے موجودہ صنعتی و تجارتی ترقی کے بہت سارے سرکاری اداروں کی موجودگی میں سمیڈا کیا مختلف رول ادا کرے گا۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سمیڈا صرف ایک ترقیاتی ادارہ نہیں ہو گا، بلکہ یہ قومی معیشت کے نروس سسٹم کا کردار انجام دے گا اور نروس سسٹم دل اور دماغ کے مجموعے کا نام ہے۔
خواجہ بلال نے سمیڈا کے اندر متحرک دلوں اور روشن دماغوں کو اکٹھا کر کے سمیڈا کی بنیاد رکھی اور ابتدائی نو دس سال کے برابر کام کر کے قومی معیشت پر ایسے گہرے اثرات مرتب کئے کہ آج 15سال بعد بھی سمیڈا کی عزت انہی اثرات کی مرہون منت ہے۔
اکتوبر1999ءکے مارشل لاءکے بعد اب تک سمیڈا اپنے سربراہان کے حوالے سے بے حد خوش قسمت رہا ہے۔ خواجہ بلال کے بعد سرکاری شعبے سے آنے والے شہاب خواجہ، شاہد رشید اور یوسف نسیم کھوکھر بھی بحیثیت چیف ایگزیکٹو افسران محنت، علم اور سوجھ بوجھ کے حوالے سے کسی طور کم نہ تھے۔ انہوں نے تمام تر سرکاری پابندیوں کے باوجود سمیڈا کی اساس کو نہ صرف بحال رکھا، بلکہ جہاں جہاں ممکن ہوا اسے مزید اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی بھی کی۔
سمیڈاکے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر سردار احمد نواز سکھیرا نے ایک بار پھر سمیڈا کو قومی معیشت کے نروس سسٹم کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے سال کے شروع میں سمیڈا کی سربراہی کا قلمدان سنبھالا اور قومی معیشت کے نروس سسٹم کو یوں بیدار کیا کہ ٹھیک پانچ ماہ بعد وہ قوم کی معاشی بدحالی کے خاتمے کا فارمولا پیش کرنے کے قابل ہو گئے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک پریس بریفنگ کے دوران قوم کو یہ عندیہ دیا ہے کہ سمیڈا میں ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کے لئے جس نئے پانچ سالہ بزنس پلان کو حتمی شکل دی جا رہی ہے وہ پاکستان کی معاشی تقدیر کو بدل کے رکھ دے گا۔

مجوزہ منصوبے کے تحت سمیڈا نے آئندہ پانچ سال کے لئے جو اہداف مقرر کئے ان کے لئے اس وقت ملک میں تقریباً17لاکھ30ہزار ایس ایم ایز ہیں، جن کی تعداد پانچ سال میں بڑھ کر20لاکھ ہو جائے گی اور سال 2018ءتک2لاکھ70 ہزار نئے کاروبار جنم لے چکے ہوں گے، لہٰذا روزگار کے مواقع، جن کی تعداد اس وقت ایک کروڑ48لاکھ50 ہزار کے لگ بھگ ہے آئندہ پانچ سال میں بڑھ کر اڑھائی کروڑ ہو جائے گی، یعنی کہ سال2018ءتک ایک کروڑ نئی ملازمتیں پیدا ہو چکی ہوں گی۔
اسی طرح سمیڈا کا دعویٰ ہے کہ اگر سمیڈا کے نئے بزنس پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو جی ڈی پی آئندہ پانچ سال میں73.95ارب ڈالر سے بڑھ کر 193.50ارب ڈالر ہو جائے گی، جبکہ برآمدات میں کم از کم چار گنا اضافہ ہو گا۔ اس وقت برآمدات جو کہ 18.12ارب ہیں، آئندہ پانچ سال کے دوران بڑھ کر 54.20ارب ڈالر ہو جائیں گی، یعنی سال2018ءتک ہماری برآمدات میں36ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔
سمیڈا میں تیز تر ترقی کے حامل سیکٹرز کو عالمی سپلائی چین کا حصہ بنانے کے لئے ایک ایسا سیکٹر ڈویلپمنٹ پلان تشکیل دیا جا رہا ہے، جس میں گیم چینجر کی واضح نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں13ترجیحی کاروباری سیکٹرز پر مینی ترقیاتی اقدامات تشکیل دیئے گئے ہیں اور اس حوالے سے ہر سیکٹر کے لئے علیحدہ علیحدہ ویلیو چین انیلائسز کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر پالیسی و ریگولیٹری ماحول، بزنس ڈویلپمنٹ سروسز، حکمت عملیوں کی تشکیل، بنیادی سہولتوں اور نیٹ ورکنگ کی فراہمی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
سیکٹر ڈویلپمنٹ پلان میں جن 13کاروباری و صنعتی شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر منتخب کیا گیا ہے ان میں لاجسٹک، جیم اینڈ جیولری، فشریز، انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی، ہارٹی کلچر، کنسٹرکشن، ڈیری اینڈ لائیو سٹاک، انجینئرنگ، انرجی، لیدر، معدنیات، سیاحت اور ٹیکسٹائل کے شعبے شامل ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی نو منتخب حکومت اپنے سابقہ دور حکومت میں تخلیق دیئے جانے والے معاشی نروس سسٹم کو تقویت دیتی ہے کہ نہیں۔ سمیڈا نے معاشی ترقی کا ایک قابل عمل منصوبہ وضع کر کے ثابت کر دیا ہے کہ قومی معیشت کے نروس سسٹم میں ابھی جان باقی ہے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ اس منہنی نروس سسٹم کو اپنی سرپرستی کی طاقت عطا کر کے مزید فعال بنائے تاکہ غربت و بیروزگاری کے دُکھوں میں جکڑی قوم معاشی ترقی کا سکھ پا سکے۔  ٭

مزید :

کالم -