جاوید ہاشمی کا دُکھ

جاوید ہاشمی کا دُکھ
جاوید ہاشمی کا دُکھ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نہایت جہاندیدہ، بے مثال بانکپن کے مالک، ابتلا و آزمائش کی ساعتوں میں بھی صبرو رضا کا دامن تھامے رہنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کے متعلق اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ اب بھی وہ زبان کی پھسلن کا شکار ہو سکتے ہیں تو اس عالی دماغ کے کیا کہنے۔ 5جون2013ءکو قومی اسمبلی کے اس اجلاس جس میں میاں محمد نواز شریف قائد ایوان کے منصب پر فائز ہوئے، حزب اختلاف کی اہم جماعت تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کا یہ کہنا کہ نواز شریف ماضی میں بھی میرے رہنما تھے اور اب بھی ہیں، اُن کی پارٹی میں زبردست بھونچال کی آمد کا موجب بنا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عدم دستیابی کے باعث قائد ایوان کے انتخاب کے بعد پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے خطابت کا فریضہ مخدوم جاوید ہاشمی نے سرانجام دیا، مسلم لیگ(ن) کے نامزد کردہ میاں نواز شریف جب 244ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے تو مسلم لیگ(ن) کے سابق نائب صدر اور تحریک انصاف کے موجودہ صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے انہیں اپنے روایتی انداز سے پُرجوش مبارکباد دی، جس کے بعد میاں نواز شریف نے اُن سے نہایت گرمجوشی سے معانقہ کیا اور شاید اسی پذیرائی کا کمال تھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے ماضی کے رہنما سے متعلق ایسے خیالات کا اظہار کیا، جس پر اُن کی پارٹی نے اُن سے شدید خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مخدوم جاوید ہاشمی سے بیان واپس لینے بصورت دیگر پارٹی کو خیرباد کہنے کا مطالبہ کیا، جس کی ملتان کے سید زادے کو ہر گز توقع نہ تھی اِس لئے چند لمحوں کے لئے وہ بالکل گم سم ہو گئے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے اپنے اس بیان کو واپس لینے کا اعلان کیا جس میں انہوں نے نواز شریف کو اپنا لیڈر قرار دیا لیکن ان کی پریس کانفرنس کا نشریہ دیکھنے والے ہر شخص نے محسوس کیا کہ 2004ءمیں آمر کے دباﺅ کی بدولت نا کردہ گناہوں پر نادم محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جس شرمندگی کا شکار تھے، شرمندگی کا وہی رنگ جاوید ہاشمی جیسے باغی کے چہرے پر بھی بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ ہاں مَیں باغی ہوں (جاوید ہاشمی کی سوانح حیات) کے ذریعے اپنی بغاوت کا ببانگ دہل اعلان کرنے والے جاوید ہاشمی کے لئے یہ زیبا نہیں کہ کوئی ان سے اس انداز میں باز پُرس کر سکے ، جس سے ان کی اہانت کا کوئی پہلو برآمد ہوتا ہو۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ کارکنوں کے اصرار پر اپنا بیان واپس لے رہے ہیں تو ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور ناگواری کا احساس ان کے چہرے پر عیاں تھا۔ مسلم لیگ(ن) میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت سے2008ءکے انتخابات کے بعد اس وقت اختلافات شروع ہوئے جب راولپنڈی، ملتان اور لاہور کی نشستوں سے کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے راولپنڈی کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میاں نواز شریف کی خواہش تھی کہ ہاشمی صاحب پنڈی کی نشست خالی نہ کریں تاکہ شیخ رشید احمد کا باب پانچ سال کے لئے بند ہو جائے، لیکن ہاشمی صاحب نے ایسا نہ کیا۔ ہاشمی صاحب نے پارٹی کے فیصلے کے خلاف پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت میں سینئر وزیر کی حیثیت سے شامل ہونے سے اس لئے انکار کر دیا کیونکہ وہ جنرل(ر) پرویز مشرف سے حلف نہیں لینا چاہئے تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے انکار کے بعد مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے مجبوراً چودھری نثار علی خان کو سینئر وزیر نامزد کیا اور وہ اس منصب پر ستمبر 2008ءتک فائز رہے۔ ستمبر2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کی پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد جاوید ہاشمی قائد حزب اختلاف کا منصب حاصل کرنے کے خواہش مند تھے، لیکن پارٹی نے چودھری نثار کو اس منصب کے لئے نامزد کیا، جس کی وجہ اُن کا سینئر وزیر بننا تھا، جس کے بعد اُن کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے تلخیاں بڑھتی ہی گئیں۔ مارچ2011ءمیں ملتان میں یوم حمید نظامی کے حوالے سے ایک تقریب تھی جس میں دیگر مقررین کے علاوہ جاوید ہاشمی نے بھی خطاب کیا، اپنے خطاب میں ہاشمی صاحب نے جہاں ملک کو درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے بات کی وہاں موروثی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر قابض خاندانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس حوالے سے شریف خاندان کے لئے بھی کوئی رو رعایت نہ رکھی، ہاشمی صاحب کی تقریر سن کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کی راہیں مسلم لیگ(ن) سے جدا ہوئی چاہتی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس واقعے کے سوا سال (مئی2012ءتک) بعد تک وہ مسلم لیگ(ن) کا حصہ رہے۔

جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ(ن) میں رہتے ہوئے نہ صرف پارٹی پالیسیوں کے خلاف علم بلند کیا، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے رہے، لیکن اس کے باوجود پارٹی میں ان کے مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہ پڑا۔ مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے اپنی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ سے ہاشمی صاحب کی پارٹی کے لئے خدمات کا ذکر کرئے ہوئے ان کی کسی بات پر ردعمل ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک بار میاں نواز شریف سے کہا کہ وہ گستاخیاں کرتے رہیں گے تو میاں نواز شریف کا جواب تھا کہ انہیں اُن کی گستاخیوں سے بھی پیار ہے۔ جاوید ہاشمی جب مسلم لیگ(ن) کی نائب صدارت پر فائز تھے تو ان کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی نہ صرف خواتین کی مخصوص نشست پر مسلم لیگ(ن) کی ایم این اے بنیں، بلکہ وہ ملتان ڈویژن کے لئے پارٹی کی سربراہ تھیں اس کے ساتھ ساتھ جاوید ہاشمی کے دا ماد زاہد بہار ہاشمی مسلم لیگ(ن) پنجاب کی نائب صدارت کے عہدے پر فائز رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ سینئر تجزیہ کار اس فیصلے کی دوو جوہ بیان کرتے ہیں اول یہ کہ ہاشمی صاحب کا خیال تھا کہ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں(جن میں کوئی شبہ نہیں) نے انہیں وہ مقام عطا کر دیا ہے کہ وہ سیاست کی دنیا میں آئیکون کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اس لئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں رہیں ان کے اثرو رسوخ میں کمی واقع نہ ہو گی۔ دوسرا یہ کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے بہت سے دیگر سیاست دانوں کی طرح ہاشمی صاحب کا بھی یہ خیال تھا کہ عوام اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے متنفر ہو چکے ہیں اس لئے اس کا جھکاﺅ اب تیسری قوت (تحریک انصاف) کی جانب ہی ہو گا۔ مخدوم صاحب کے دونوں اندازے غلط ثابت ہوئے، مسلم لیگ(ن) کو داغ مفارقت دےکر نہ تو وہ تحریک انصاف میں اس مقام کو حاصل کر پائے جو انہیں مسلم لیگ(ن) نے دیا اور نہ ہی مسلم لیگ(ن) شکست سے دوچار ہوئی۔ ایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی یہ وہ نعرہ تھا جو جاوید ہاشمی کی اسیری کے دنوں میں اور اس کے بعد بھی (تحریک انصاف میں شامل ہونے سے قبل تک) مسلم لیگ(ن) کے کارکن لگاتے رہے اور پھر جب جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ(ن) کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا تو یہی کارکن اُن کی گاڑی سے لپٹ کر روتے رہے اور انہیں پارٹی میں رہنے کے لئے مناتے رہے۔ منیر اختر لنگاہ نے جاوید ہاشمی کو زور سے پکڑ کر کھینچا اور کہا ”نواز شریف کا ساتھ مت چھوڑو پچھتاﺅ گے“ لیکن ہاشمی صاحب سب کو روتا چھوڑ کر چلے گئے، آج ہاشمی صاحب رنجیدہ ہیں تو ان کے لئے رونے والا کوئی نہیں۔ ٭

نہایت جہاندیدہ، بے مثال بانکپن کے مالک، ابتلا و آزمائش کی ساعتوں میں بھی صبرو رضا کا دامن تھامے رہنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کے متعلق اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ اب بھی وہ زبان کی پھسلن کا شکار ہو سکتے ہیں تو اس عالی دماغ کے کیا کہنے۔ 5جون2013ءکو قومی اسمبلی کے اس اجلاس جس میں میاں محمد نواز شریف قائد ایوان کے منصب پر فائز ہوئے، حزب اختلاف کی اہم جماعت تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی کا یہ کہنا کہ نواز شریف ماضی میں بھی میرے رہنما تھے اور اب بھی ہیں، اُن کی پارٹی میں زبردست بھونچال کی آمد کا موجب بنا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عدم دستیابی کے باعث قائد ایوان کے انتخاب کے بعد پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے خطابت کا فریضہ مخدوم جاوید ہاشمی نے سرانجام دیا، مسلم لیگ(ن) کے نامزد کردہ میاں نواز شریف جب 244ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے تو مسلم لیگ(ن) کے سابق نائب صدر اور تحریک انصاف کے موجودہ صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے انہیں اپنے روایتی انداز سے پُرجوش مبارکباد دی، جس کے بعد میاں نواز شریف نے اُن سے نہایت گرمجوشی سے معانقہ کیا اور شاید اسی پذیرائی کا کمال تھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے ماضی کے رہنما سے متعلق ایسے خیالات کا اظہار کیا، جس پر اُن کی پارٹی نے اُن سے شدید خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بیان واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مخدوم جاوید ہاشمی سے بیان واپس لینے بصورت دیگر پارٹی کو خیرباد کہنے کا مطالبہ کیا، جس کی ملتان کے سید زادے کو ہر گز توقع نہ تھی اِس لئے چند لمحوں کے لئے وہ بالکل گم سم ہو گئے۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے اپنے اس بیان کو واپس لینے کا اعلان کیا جس میں انہوں نے نواز شریف کو اپنا لیڈر قرار دیا لیکن ان کی پریس کانفرنس کا نشریہ دیکھنے والے ہر شخص نے محسوس کیا کہ 2004ءمیں آمر کے دباﺅ کی بدولت نا کردہ گناہوں پر نادم محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جس شرمندگی کا شکار تھے، شرمندگی کا وہی رنگ جاوید ہاشمی جیسے باغی کے چہرے پر بھی بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔ ہاں مَیں باغی ہوں (جاوید ہاشمی کی سوانح حیات) کے ذریعے اپنی بغاوت کا ببانگ دہل اعلان کرنے والے جاوید ہاشمی کے لئے یہ زیبا نہیں کہ کوئی ان سے اس انداز میں باز پُرس کر سکے ، جس سے ان کی اہانت کا کوئی پہلو برآمد ہوتا ہو۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ کارکنوں کے اصرار پر اپنا بیان واپس لے رہے ہیں تو ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور ناگواری کا احساس ان کے چہرے پر عیاں تھا۔ مسلم لیگ(ن) میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت سے2008ءکے انتخابات کے بعد اس وقت اختلافات شروع ہوئے جب راولپنڈی، ملتان اور لاہور کی نشستوں سے کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے راولپنڈی کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میاں نواز شریف کی خواہش تھی کہ ہاشمی صاحب پنڈی کی نشست خالی نہ کریں تاکہ شیخ رشید احمد کا باب پانچ سال کے لئے بند ہو جائے، لیکن ہاشمی صاحب نے ایسا نہ کیا۔ ہاشمی صاحب نے پارٹی کے فیصلے کے خلاف پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت میں سینئر وزیر کی حیثیت سے شامل ہونے سے اس لئے انکار کر دیا کیونکہ وہ جنرل(ر) پرویز مشرف سے حلف نہیں لینا چاہئے تھے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے انکار کے بعد مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے مجبوراً چودھری نثار علی خان کو سینئر وزیر نامزد کیا اور وہ اس منصب پر ستمبر 2008ءتک فائز رہے۔ ستمبر2008ءمیں مسلم لیگ (ن) کی پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد جاوید ہاشمی قائد حزب اختلاف کا منصب حاصل کرنے کے خواہش مند تھے، لیکن پارٹی نے چودھری نثار کو اس منصب کے لئے نامزد کیا، جس کی وجہ اُن کا سینئر وزیر بننا تھا، جس کے بعد اُن کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے تلخیاں بڑھتی ہی گئیں۔ مارچ2011ءمیں ملتان میں یوم حمید نظامی کے حوالے سے ایک تقریب تھی جس میں دیگر مقررین کے علاوہ جاوید ہاشمی نے بھی خطاب کیا، اپنے خطاب میں ہاشمی صاحب نے جہاں ملک کو درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے بات کی وہاں موروثی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر قابض خاندانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس حوالے سے شریف خاندان کے لئے بھی کوئی رو رعایت نہ رکھی، ہاشمی صاحب کی تقریر سن کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کی راہیں مسلم لیگ(ن) سے جدا ہوئی چاہتی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس واقعے کے سوا سال (مئی2012ءتک) بعد تک وہ مسلم لیگ(ن) کا حصہ رہے۔

جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ(ن) میں رہتے ہوئے نہ صرف پارٹی پالیسیوں کے خلاف علم بلند کیا، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے رہے، لیکن اس کے باوجود پارٹی میں ان کے مقام و مرتبے میں کوئی فرق نہ پڑا۔ مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے اپنی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈر شپ سے ہاشمی صاحب کی پارٹی کے لئے خدمات کا ذکر کرئے ہوئے ان کی کسی بات پر ردعمل ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک بار میاں نواز شریف سے کہا کہ وہ گستاخیاں کرتے رہیں گے تو میاں نواز شریف کا جواب تھا کہ انہیں اُن کی گستاخیوں سے بھی پیار ہے۔ جاوید ہاشمی جب مسلم لیگ(ن) کی نائب صدارت پر فائز تھے تو ان کی صاحبزادی میمونہ ہاشمی نہ صرف خواتین کی مخصوص نشست پر مسلم لیگ(ن) کی ایم این اے بنیں، بلکہ وہ ملتان ڈویژن کے لئے پارٹی کی سربراہ تھیں اس کے ساتھ ساتھ جاوید ہاشمی کے دا ماد زاہد بہار ہاشمی مسلم لیگ(ن) پنجاب کی نائب صدارت کے عہدے پر فائز رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ سینئر تجزیہ کار اس فیصلے کی دوو جوہ بیان کرتے ہیں اول یہ کہ ہاشمی صاحب کا خیال تھا کہ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں(جن میں کوئی شبہ نہیں) نے انہیں وہ مقام عطا کر دیا ہے کہ وہ سیاست کی دنیا میں آئیکون کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اس لئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت میں رہیں ان کے اثرو رسوخ میں کمی واقع نہ ہو گی۔ دوسرا یہ کہ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے بہت سے دیگر سیاست دانوں کی طرح ہاشمی صاحب کا بھی یہ خیال تھا کہ عوام اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے متنفر ہو چکے ہیں اس لئے اس کا جھکاﺅ اب تیسری قوت (تحریک انصاف) کی جانب ہی ہو گا۔ مخدوم صاحب کے دونوں اندازے غلط ثابت ہوئے، مسلم لیگ(ن) کو داغ مفارقت دےکر نہ تو وہ تحریک انصاف میں اس مقام کو حاصل کر پائے جو انہیں مسلم لیگ(ن) نے دیا اور نہ ہی مسلم لیگ(ن) شکست سے دوچار ہوئی۔ ایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی یہ وہ نعرہ تھا جو جاوید ہاشمی کی اسیری کے دنوں میں اور اس کے بعد بھی (تحریک انصاف میں شامل ہونے سے قبل تک) مسلم لیگ(ن) کے کارکن لگاتے رہے اور پھر جب جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ(ن) کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا تو یہی کارکن اُن کی گاڑی سے لپٹ کر روتے رہے اور انہیں پارٹی میں رہنے کے لئے مناتے رہے۔ منیر اختر لنگاہ نے جاوید ہاشمی کو زور سے پکڑ کر کھینچا اور کہا ”نواز شریف کا ساتھ مت چھوڑو پچھتاﺅ گے“ لیکن ہاشمی صاحب سب کو روتا چھوڑ کر چلے گئے، آج ہاشمی صاحب رنجیدہ ہیں تو ان کے لئے رونے والا کوئی نہیں۔ ٭

مزید :

کالم -