پاناما لیکس ، وزیراعظم کو اپنی صفائی میں ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں، شواہد اکٹھے کرنا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا کام ہے
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پاناما پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سوالوں کے تقریباًتین گھنٹے تک سامنا کیاجس کے بعد انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے بات بھی کی ۔انہوں نے دیگر باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ زمانہ گیا جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا ،اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جاسکتے ۔عوام کے فیصلوں پر مخصوص ایجنڈا چلانے والی فیکٹریاں بند نہ کی گئیں تو آئین اور جمہوریت ہی نہیں ملک کی سلامتی بھی خدا نخواستہ خطرے میں پڑ جائے گی ،آنے والے دنوں میں بہت کچھ کہوں گا۔وزیراعظم کا پاناما لیکس میں نام نہیں ۔پاناما پیپرز میں بیان کی گئی کمپنیاں ان کے بیٹوں کی ملکیت ہیں جس سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا ۔سپریم کورٹ نے میاں محمد نواز شریف کے کردار کے حوالے سے محض اتنا سوال اٹھایا ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ اپنے بیٹوں کی آف شور کمپنیوں میں حصہ دار تو نہیں ؟ عدالت نے اس سوال کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ ان کے بیٹوں نے کم عمری میں اتنے زیادہ اثاثے کیوں کر بنا لئے اور وہ اپنے والد کو بھاری رقوم کے تحفے کیوں دے رہے ہیں ؟اس حوالے سے قانونی طور پر وزیراعظم کو اپنی صفائی میںثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ان سوالات کا جواب دینا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا کام ہے ،جے آئی ٹی کے پاس اگر کوئی ایسے ثبوت ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ مذکورہ آف شور کمپنیوں کی ملکیت میں میاں محمد نواز شریف کا حصہ بھی ہے تو پھر وہ اس حوالے سے میاں نواز شریف سے تحقیقات کرسکتی ہے ۔اس وقت تک جے آئی ٹی کے ہاتھ ایسا کوئی ثبوت نہیں لگا جس سے آف شور کمپنیوں میں میاں نواز شریف کی حصہ داری کا پتہ چلتا ہو ۔6نومبر 1990ءکو پہلی مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی وہ اپنے تمام کاروبار سے دستبردار ہوچکے تھے ۔اپنے بچوں کی آف شورکمپنیوں کے قیام کے لئے رقوم کی فراہمی کے لئے وزیراعظم نے اگر اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا تھا تو اس کا پتہ چلانا بھی جے آئی ٹی کا کام ہے ۔جے آئی ٹی اگر ایسی شہادتیں اکٹھی کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر ان شہادتوں کی بنیاد پر وزیراعظم سے سوال پوچھ سکتی ہے ،قانونی اور آئینی طور پر کسی شخص کو اپنے ہی خلاف گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جبکہ آئین کے آرٹیکل 10(اے)کے تحت ہرشخص منصفانہ کارروائی اورسماعت کا حق رکھتا ہے ۔منی ٹریل ثابت کرنا نواز شریف کی ذمہ داری نہیں ہے ۔اس عدالتی سوال کا جواب دینا ان کے بچوں کی ذمہ داری اور اس بابت تحقیقات کرنا جے آئی ٹی کا کام ہے ۔وزیراعظم کے خلاف شور مچانے والے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے وزیراعظم کے خلاف کوئی ثبوت سپریم کورٹ میں پیش نہیں کرسکے تھے ،جہاں تک حدیبیہ پیپر ملز اورحدیبیہ انجینئرنگ کے حوالے سے منی لانڈرنگ کا ایشو ہے ،ان مقدمات میں بھی کبھی میاں نواز شریف ملزم نہیں رہے ، 10نومبر1994ءکو بے نامی فارن کرنسی اکاﺅنٹس کھلوانے کے حوالے سے ایف آئی اے اسلام آبادنے جو ایف آئی آر نمبر12درج کی تھی اس میں میاں محمد شریف ،عباس شریف ،حسین نواز ،مختار اور عبدالحمید بٹ وغیرہ نامزد ملزم تھے ،اس ایف آئی آر میں میاں محمد نواز شریف اوراسحاق ڈار دونوں ہی ملزم نہیں تھے ۔اس مقدمہ میں قاضی خاندان کی رکن نزہت گوہراورکاشف قاضی کو بھی ملزم قرار دیا گیا ،اس کیس میں سکندرا قاضی کا نام بھی سامنے آیا ،جس کے بعد قاضی فیملی کی طرف سے الزام عائد کیا گیا کہ ان کے خاندان کے افراد کے نام پر اسحاق ڈار نے جعل سازی سے بینک اکاﺅنٹس کھلوائے اورانہیں1992ءمیں اس بابت معلوم ہوا کہ ان کھاتوں کے ذریعے تقریباً 5ملین پاﺅنڈز کی ٹرانزیکشن کی گئی ۔یہ ایف آئی آر عدالت نے خارج کردی تھی ۔میاں محمد نواز شریف توحدیبیہ پیپر ملز یا حدیبیہ انجینئرنگ کے ڈائریکٹروں میں بھی کبھی شامل نہیں رہے ۔اس صورتحال میں میاں محمد نواز شریف سے کس بات کی صفائی مانگی جارہی ہے ۔وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد میڈیا سے جوگفتگو کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یہ کہ مخصوص ایجنڈا رکھنے والے انہیں خوف زدہ کرنے میںناکام رہے ہیں ۔انہوں نے مخصوص ایجنڈا رکھنے والوں سے مقابلے کے عزم کا اظہار کیا ۔