سیرت طیّبہ پر عظیم کتاب!
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: وَمَآ أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔8 (الانبیاء ۱۲:۷۰۱)
برادر عزیز حافظ محمدادریس صاحب کا معمول ہے کہ قرآن کی تلاوت مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والوں کے دل ودماغ میں تمام آیات کا مفہوم اور پس منظر نقش ہوجاتا ہے۔
اس کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ محترم جناب حافظ صاحب نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر لکھی گئی ان کتب کے نام ’’رسولِ رحمتؐ‘‘ رکھتے ہوئے سورۃ الانبیاء کی اس آیت سے رہنمائی حاصل کی ہوگی، جو میں نے آغاز میں لکھی ہے۔
محترم حافظ صاحب انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کو بچپن میں اپنے نیک، صالح اور باعمل والدین اور عالم فاضل تایا جان کی ایسی تربیت اور دینی رہنمائی حاصل ہوگئی کہ پرائمری کے طالب علم ہونے کے زمانے سے ہی انھیں سیرت النبیؐ کی بابرکت کتابیں پڑھنے اور ان سے استفادہ کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔
بعد کے ادوار میں یہ شوق بڑھتا چلا گیا اور انھوں نے سیرت کے موضوع پر مفید اور معیاری تمام کتب مطالعہ کرلیں۔ سیرت طیبہ کے موضوع پر لکھنے کی صلاحیت پیدا کرلینے کے بعد انھوں نے مبارک عزم کر لیا کہ وہ اس موضوع پر کتب کا ایک تحقیقی مجموعہ تیار کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نیک ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں ان پر کرم کرکے ضروری وسائل بھی مہیا فرمادیے۔
اب سات جلدوں میں سیرت رسول رحمتؐ پر یہ ایک طرح سے ’’سیرت انسائیکلو پیڈیا‘‘ تیار کرنے کی سعادت انھیں حاصل ہوگئی ہے، جس پر وہ دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے اور اس کا اجرعظیم محترم حافظ صاحب کو عطا فرمائے۔ آمین!
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مکی دور دو حصوں پر مشتمل ہے۔
ایک دور ولادت مسعود سے لے کر نزولِ وحی تک اور دوسرا منصب نبوت پر فائز ہونے سے لے کر ہجرت مدینہ تک۔ پہلے دور میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم بہت سی آزمایشوں اور ابتلا سے گزرے، جن کا تذکرہ فاضل مصنف نے پہلی جلد میں کیا ہے۔
دوسرا دور جو تیرہ سال پر محیط ہے، اسلام اور جاہلیت کے درمیان سخت کشمکش، مشرکین اور کفار کی طرف سے الزامات تراشی، شبہات، مزاحمت اور بے پناہ ظلم وستم ڈھانے کا دور تھا۔
اسی دور میں خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مومن مردوں اور خواتین کو حبشہ کی جانب ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملک چلے گئے تاکہ وہاں اپنے دین پر عمل کرسکیں۔
پہلی ہجرت حبشہ کے بعد دوسری ہجرت حبشہ بھی جلد ہی عمل میں آئی۔ اس کے بعد مزید آزمایشیں اور دشمنوں کی سازشیں مسلسل بڑھتی چلی گئیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان اور اسلام قبول کرنے والے مخلص ساتھیوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کرکے انھیں شعبِ ابی طالب میں محصور کردیا گیا اور اللہ کے محبوب نبیؐ اور ان کے پاکیزہ ساتھیوں کو اس حد تک تنگ کردیا گیا کہ بھوک پیاس نے زندگی اجیرن کردی۔ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے ساتھیوں کو اس عرصے میں درختوں کے پتے اور چھال تک کھانا پڑی۔ ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ خشک ہوگیا اور شیرخوار بچوں کی دردناک چیخوں سے پہاڑوں کے دل بھی لرز اٹھے، مگر کافروں کے دل نہ پسیجے۔ ظلم کا یہ دور بھی ایک معجزے کے نتیجے میں ختم ہوا۔ کتاب کے اندر اس کا تذکرہ بہت دل نشین انداز میں کیا گیا ہے۔
رسول رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں کی دوسری جلد پہلی ہجرت حبشہ کے ذکر سے شروع ہوتی ہے۔ بعض اکابرصحابہؓ کے قبول اسلام کے ایمان افروز ذکر کے بعد عام الحزن کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔
مکہ معظمہ میں ایک عرصے تک دعوت کا کام کرتے ہوئے شدید رکاوٹوں اور سخت مزاحمت کے باوجود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلصانہ دعوت مکہ کے تقریباً ہر گھر تک پہنچ گئی۔
مشرکین مکہ کے اپنے بیٹے، بیٹیاں اور قریبی رشتہ دار حضورنبی کریم صلی اللہ عیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہو کر اسلام کے دامن میں آگئے اور جاں نثار ساتھی بن گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی وجہ سے وہ اس قدر صالح، صادق، امین اور پاکیزہ اخلاق کے انسان بن جاتے تھے کہ اس بگڑے ہوئے معاشرے میں قیمتی ہیرے اور روشن ستارے معلوم ہوتے تھے۔
اسلام کی اس پیش رفت کے ساتھ ہی کفار کی مزاحمت بھی شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ ان حالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر اختیار کیا۔ محترم حافظ صاحب نے سفرِطائف کے احوال تفصیل سے بیان کیے ہیں اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے پرسوز کا ذکر کیا ہے۔
اس دعا میں رسول رحمتؐ کی عالی ظرفی کی جھلک نظر آتی ہے۔ اپنے زخموں سے چور بدن کی کوئی شکایت نہ کی اور نہ ظالموں کے لئے بددعا کی۔ محترم حافظ صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ یہ دعا اتنی عظیم الشان ہے کہ اللہ کے راستے میں کام کرنے والوں کو ہر روز اللہ سے یہ دعامانگنی چاہیے۔ تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ مجھے ۸۷۹۱ء میں طائف جانے کا موقع ملا۔
طائف میں میرے میزبان ڈاکٹر عبدالقیوم سعادت مرحوم مجھے اس باغ میں لے گئے جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی ہو کر پناہ لی تھی۔ وہاں ایک مسجد بنائی گئی ہے جس میں دو رکعت نفل پڑھنے کی سعادت حاصل ہوگئی تھی۔
سیرت کی کتابوں میں اس سفر کا جو حال پڑھا تھا، اس کا ایک ایک واقعہ نظروں کے سامنے تازہ ہوگیا۔ میں اس مقام پر کھڑا تھا جہاں رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن حارثہ کے قدم مبارک پڑے تھے۔
الحمدللہ یہ میری زندگی کا ایک یاد گار واقعہ ہے۔ داعی اعظمؐ کی ابلاغِ دعوت کی لگن کا اندازہ بھی اس سفر میں مجھے ہوا کہ بہت مشکل اور پرپیچ پہاڑی راستے سے طائف جانے کے لئے حضورؐ نے کس قدر تکلیف اٹھائی ہوگی۔
مکی دور کے آخر میں کفار کی مزاحمت سخت تر ہوگئی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں کا دائرہ بڑھ گیا اور رحمۃ للعالمینؐ کو قتل کردینے کا ناپاک منصوبہ بھی بنا لیا گیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ ہجرت کرجانے کا حکم دے دیا۔
آپؐ کی ہجرت سے قبل صحابہؓ وصحابیاتؓ کی ایک تعداد تو حبشہ چلی گئی تھی اور باقی بھی آپ کی ہدایت کے مطابق بڑی تعداد میں مدینہ پہنچ چکے تھے۔
مکہ میں بہت کم لوگ رہ گئے تھے۔ اِنھوں نے بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکہ سے مدینہ کا سفر کیا اور کئی مشکلات سے گزر کر دارالامن میں پہنچ گئے۔
محترم حافظ محمد ادریس صاحب نے اس کتاب کے آخر میں مکہ معظمہ سے ہجرت کے سفر کا ایمان افروز حال تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ حافظ صاحب کی خوبی ہے کہ انھوں نے سیرت کے تاریخی واقعات کے ساتھ قرآن مجید کی متعلقہ آیات اور احادیث بھی جگہ جگہ بیان کردی ہیں۔ اس سے سیرت کے اس مجموعے کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔
کتاب میں نقشہ جات بھی قاری کے لئے دل چسپی کا باعث ہوں گے۔ عالم اسلام اور مسلمانانِ عالم آج کل جن مشکل حالات سے دوچار ہیں وہ اپنی جگہ ناقابل بیان ہیں۔ کئی ممالک میں کفار کی سازشیں بروئے کار لائی جارہی ہیں۔
مسلمانوں کو گھر بار سے بے دخل کرکے لاکھوں کی تعداد میں موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے۔ کفار اور ان کے آلۂ کار بعض نام نہاد مسلمان حکمران اہل ایمان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ان پرآشوب حالات میں رسول رحمتؐ مکہ کی وادیوں میں ایک حوصلہ افزا ماحول پیدا کرسکتی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ اللہ کے فضل سے سیرت مطہرہ پر یہ دو جلدیں مظلومین کے لئے ڈھارس، رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا باعث بنیں گی۔ ان شاء اللہ!اللہ تعالیٰ محترم حافظ صاحب کو سات جلدوں میں سیرت انسائیکلوپیڈیا تحریر کرنے، شائع کرانے اور سیرت سرور عالمؐ کے لٹریچر میں اس انتہائی بیش قیمت اضافے کا بہترین اجر عطا فرمائے۔
آمین! اللہ تعالیٰ اس مجموعۂ کتب کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ محترم حافظ صاحب کے لئے میری مخلصانہ دعا ہے کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی سَیِّدنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّم تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا۔