بجٹ کی کڑوی گولی
اب تو حکومت نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ بجٹ ایک کڑوی گولی ہے، جسے عوام نے نگل لیا تو اُن کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ماضی میں بھی بیسیوں مرتبہ بجٹ پیش کرتے ہوئے عوام سے یہی کہا گیا کہ وہ اس بار یہ کڑوی گولی کھا لیں،اس کے بعد موجاں ہی موجاں۔عوام کڑوی گولیاں تو نگلتے رہے،مگر انہیں افاقہ ہونے کی بجائے مزید مشکلات میں زندگی گزارنی پڑی، پتہ نہیں اس ملک میں عوام کو میٹھی گولی کب ملے گی، میٹھی لوریاں سنا کر تو انہیں ہمیشہ بہلایا گیا ہے،لیکن اس بار تو چونکہ نئے پرانے پاکستان کی تفریق بھی پیدا ہو گئی تھی اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ نئے پاکستان میں سب اچھا ہی اچھا ہو گا، اِس لئے یہ کڑوی گولی کچھ زیادہ ہی کڑوی لگ رہی ہے، سفید دکھا کر جب ہاتھ میں کالا پتھر پکڑا دیا جائے تو حالت وہی ہوتی ہے جو اس وقت پاکستانی عوام کی ہے، اب انہیں کڑوی گولی نگلنے کے فوائد بتائے جا رہے ہیں، عوام کس کھیت کی مولی ہیں کہ کڑوی گولی نگلنے سے انکار کریں۔
آرام سے نہیں نگلیں گے تو زبردستی نگلنی پڑے گی۔ بجٹ ہے کوئی خالہ جی کا گھر تو ہے نہیں کہ اسے نہ مانا جائے،جب ماننا ہی ہے تو پھر سر جھکاؤ، جان چھڑاؤ، نگلو اِس کڑوی گولی کو اور رکھو امیدیں اچھے دِنوں کی،اس کڑوی گولی کے نتیجے میں کوئی فرق نہ پڑا تو بھی کوئی بات نہیں، اب تو نواز شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ عمران خان کا وقت پورا ہو گیا ہے، اُن کے جانے کی گھڑی بس آنے ہی والی ہے۔ عمران خان چلا جائے گا تو پھر پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، پھر وہی خوشحالی کا دور لوٹ آئے گا جو تحریک انصاف کی حکومت کے آنے سے پہلے تھا۔
ہمارے بھولے بادشاہ لائی لگ عوام کسی کی میٹھی گولی کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور کوئی انہیں کڑوی گولی نگلنے کا مشورہ دیتاہے۔یہاں کچھ بدلا ہے نہ بدلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی استحصالی اور کرپٹ نظام بدلنے کو تیار نہیں، تیار ہو بھی جائے تو اُسے ایسا دھوبی پٹڑا لگتا ہے کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔اب اپنے کپتان کی مثال ہی لے لیں۔کیسے کیسے منصوبے نہیں بناتے تھے، خواب نہیں دکھاتے تھے، لیکن اقتدار میں آتے ہی سارے کس بل نکل گئے۔ ”خزانہ خالی ہے“ کی دہائیاں شروع ہوئیں اور بیانیہ بدل کر اس نکتے پر آیا کہ میرے پاس کوئی جادو نہیں کہ یکدم ملکی حالات کو ٹھیک کر دوں۔
پرانے فارمولوں کی آمیزش سے نئی کھیر کیسے بن سکتی ہے۔ سو وہی ٹوٹکے استعمال کرنے پر جو ماضی میں بھی تیز بہدف خیال کئے جاتے رہے ہیں۔تنخواہ داروں پر بجلی گرائی گئی، ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا، ”خزانہ خالی ہے“ کی گردان کی گئی اور عوام سے کہا گیا تھوڑی اور قربانی دیں، کچھ اور کڑوی گولیاں نگلیں۔ اب اپوزیشن کی طرف دیکھیں، وہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ بجٹ اجلاس میں سنجیدہ بحث کے ذریعے مثبت تجاویز پیش کرنے کی بجائے اُس کا سارا زور بھی اس نکتے پر ہے کہ حکومت کو کس طرح نکالا جائے۔جمہوری حکومتوں میں تو بجٹ کے مسئلے پر اپوزیشن ایوان کا قبضہ نہیں چھوڑتی اور بجٹ کا تیا پانچہ کر کے رکھ دیتی ہے۔
یہاں بات کرنے کی بجائے بجٹ کی کاپیاں ہی پھاڑ دی جاتی ہیں،اس سارے ڈرامے سے عوام کے ہاتھ کیا آتا ہے،کسی کو کچھ معلوم ہے تو بتائے۔ گھوم پھر کے انہیں بجٹ کی کڑوی گولی ہی نگلنی پڑنی ہے۔ حکومت کے خلاف احتجاج تو بجٹ کے بعد بھی ہو سکتا ہے۔ فی الوقت تو بجٹ کے نقائص اور عوام دشمن ہونے کے نکات سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت پر دباؤ پڑے اور وہ بجٹ تجاویز میں ردوبدل پر مجبور ہو جائے، مگر اتنی محنت کون کرے۔ بڑا آسان سا راستہ ہے کہ بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا جائے اور اسمبلی میں بائیکاٹ بائیکاٹ کا شور مچا کر حکومت کو من مانی کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
میرا تو آج بھی اس بات پر یقین ہے کہ پاکستان پر اشرافیہ کی حکومت ہے، اکیلا کوئی عمران خان جیسا حکمران آ بھی جائے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ ٹی وی پر آکر تقریریں کرے گا،نہیں چھوڑوں گا کی گردان کرے گا، دھمکیاں دے گا، مگر عملاً اس لئے کچھ نہیں کرے گا کہ وزیراعظم ہاؤس کے باہر کی جو دُنیا ہے وہ اشرافیہ کے قبضے میں ہے۔اُس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں،جنہوں نے دولت لوٹی یا پھر اقتدار کے مزے لوٹے ہیں، گرفتاریوں اور رہائیوں کے واقعات ہوتے رہیں گے،مگر قومی خزانے میں ایک دھیلہ نہیں آئے گا۔ قومی خزانہ عوام نے ہی بھرنا ہے،چاہے اُن کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک کیوں نہ نچوڑ لیا جائے۔
کوئی غور تو کرے کہ مہنگائی کا شور مچانے والی اپوزیشن نے ابھی تک کون سا سنجیدہ احتجاج کیا ہے۔ اسمبلی میں سپیکر ڈائس کے سامنے آ کر دھما چوکڑی مچانا کون سا احتجاج ہے۔ احتجاج تو سڑکوں پر ہوتا ہے، مگر جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں،وہ بھلا کیوں احتجاج کریں، وہ تو صرف احتجاج کا ڈرامہ ہی کر سکتے ہیں، سو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حکومت اگر عوام کو بجٹ کی کڑوی گولی نگلنے پر مجبور کر رہی ہے تو اپوزیشن بھی اُس کے راستے کی دیوار نہیں، وہ بھی یہی چاہتی ہے،عوام کڑوی گولی نگلیں، پیٹ میں درد ہو تو مجبور ہو کر سڑکوں پرآئیں اور ہم اُن کی قیادت کو پہنچ جائیں۔
بجٹ ایک ایسا سلو پوائزن ہے جس کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ گیارہ کھرب روپے کے جو نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں،وہ یکدم تو وصول نہیں کرنے،بلکہ12مہینوں میں آہستہ آہستہ کر کے عوام کے بدن سے نچوڑنے ہیں، اِس لئے عوام کو فوری طور پر پتہ نہیں چلتا کہ اُن کی چمڑی اُدھیڑ لی گئی ہے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی چکر چلتا دیکھ رہے ہیں۔ عوام کبھی خوشحال نہیں ہوئے، ہر پانچ دس برس کے بعد جو مڈل کلاس پیدا ہوتی ہے، اُسے ایک جھٹکے کے ساتھ پھر غربت کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ آج کل پھر مڈل کلاس کے بخیئے اُدھیڑے جا رہے ہیں، اُس کی سفید پوشی کا جو بھرم قائم تھا، اُسے توڑ دیا گیا ہے۔ ایک طرف ڈالر نے اُس کی حقیقی آمدنی کم کر دی اور دوسری طرف حکومت نے ٹیکس سلیب ختم کر کے اُس کی آمدنی میں مزید کمی کر دی۔ اب اُسے پھر روٹی،دال کی فکر پڑ جائے گی۔
ابھی تو ان گیارہ کھرب روپے کے نئے ٹیکسوں نے آہستہ آہستہ عوام کی رگوں سے لہو نچوڑنا ہے، وہ جب بھی کوئی شے خریدنے مارکیٹ جائیں گے،انہیں نرخ بڑھے ہوئے ملیں گے اور دوسری طرف آمدنی سکڑتی نظر آئے گی۔ کہتے ہیں مڈل کلاس کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے،اُسی کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور ملک آگے جاتا ہے۔پرویز مشرف دور میں مڈل کلاس کی افزائش بڑی تیزی سے ہوئی، کیونکہ انہوں نے مہنگائی پر کنٹرول رکھا اور تنخواہوں میں اضافہ کیا۔ چھوٹے کاروباری افراد بھی آگے بڑھے اور انہوں نے بڑے بڑے پلازے بنا لئے، لیکن اب پھر یہ مڈل کلاس شدید دباؤ میں ہے۔
وہ روکھے سوکھے ہو کر گرمیوں میں چند گھنٹے اے سی چلا لیتی تھی،بینکوں سے قرض لے کر گاڑی لیتی اور قسطیں ادا کر تی تھی، کیونکہ روز مرہ اخراجات سے کچھ بچت ہو جاتی تھی،اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھاتی اور اُن کی فیسیں بھی ادا کرنے کی استعداد رکھتی،مگر اب تو یہ سب کچھ خواب و خیال ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی، ٹیکسوں میں چھوٹ کا خاتمہ، سکڑتی ہوئی آمدنی، مڈل کلاس کے لوگوں کو بوریا بستر سمیٹنے کی راہ دکھائی دے رہی ہے۔
چلو فرض کرتے ہیں کہ عوام اس بجٹ کو کڑوی گولی سمجھ کے نگل لیتے ہیں۔ کیا واقعی اُس کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا؟ یہ مایوسی اور خوف کے بادل جھٹ جائیں گے؟ وہ نیا پاکستان طلوع ہوتا نظر آئے گا،جو پچھلے دس ماہ سے پوری طرح دھندلایا نظر آ رہا ہے۔کوئی ہے جو یہ یقین دِلا سکے؟