پنجاب اسمبلی کو خراج تحسین
دین اسلام کے خلاف روز اول سے سازشوں کا زوررہا ہے جب دیکھا کہ بات زور بازو سے نہیں بن رہی تو اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کیلئے سازشوں کا جال بچھایا اور اس مقصد کیلئے باقاعدہ کتابیں تحریر کی جاتی رہیں اور بے سروپا باتیں اسلام کے متعلق من گھڑت واقعات جن سے لوگ اسلام سے متنفر ہوں پھیلانا شروع کر دیئے اور ہر دور میں ان سازشوں کا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے چاہنے والوں نے مقابلہ ڈٹ کر کیا ہے۔یہ سلسلہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا ابھی بھی مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے بارے میں ایسی باتیں تحریر کی جاتی ہیں تا کہ مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور فرقہ واریت کی آگ مسلمانوں میں بھڑکانے کیلئے کتابیں تحریر کر کے پھیلائی جاتی ہیں تا کہ امن و امان تباہ ہو اور مسلمان آپس میں دست و گریبان ہوں۔حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں رکن اسمبلی خدیجہ عمر نے گستاخانہ مواد کی اشاعت کیخلاف ایک بل پیش کیا جسے ایوان کی متفقہ رائے سے منظور کیا گیا۔اس بل کو پیش کرنے اور اور بل کو قانون کا حصہ بنانے میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی اور ان کے صاحبزادگان چوہدری راسخ الہٰی اور مونس الہٰی کا بڑا اہم کردار ہے۔
چوہدری پرویز الہی اور ان کے خانوادے کی دین سے محبت اور علماء کرام سے الفت اس بات کا اظہار ہے اس طرح کے لوگ اگر اسمبلیوں میں موجود ہوں گے تو کوئی چور،کوئی خائن دین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اس کے علاوہ ممبر صوبائی اسمبلی حافظ عمار یاسر کی کوشوں کو بھی سراہا جانا چاہئے کہ جن کی بدولت وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار اور قائد حزب اختلاف حمزہ شہبازشریف سمیت تمام اراکین اسمبلی نے اس کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے،جن لوگوں نے بھی اس قرار داد کو قانون کا حصہ بنانے کی کوششوں میں تعاون کیا ہے یقینا وہ سب لوگ داد کے مستحق ہیں اور ان کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ اسلام اور مقدس ہستیوں کیخلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے اداروں میں بیٹھے لوگ مکمل تیار ہیں۔ قرار داد کے متن کے مطابق جو کتب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت نصاب تعلیم سے وابستہ ہیں ایسا مواد جن میں توہین رسالت، ناموس صحابہ ا ور ناموس اہل بیت کے حوالے سے توہین آمیز مواد شائع ہوتا ہے ان کی اشاعت اب ممکن نہ ہو سکے گی۔پاکستان میں کچھ سازشی عناصرموجود ہیں جب بھی پاکستان میں نئی حکومت آتی ہے تو یہ لوگ پاکستان کے آئین اور قوانین سے امتناع قادیانیت قوانین اور ختم نبوت کے تحفظ کیلیے جوقوانین ہیں ان کو خارج کروانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی یہ کوشش کی گئی،جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاسپورٹ میں سے مذہب کے خانہ کو حذف کر دیا گیا،شاہد خاقان عباسی کے دور میں ختم نبوت کا لفظ حلف نامہ سے نکالنے کی کوشش کی گئی اور اب عمران خان کے دور میں بھی عاطف میاں کو ممبر اقتصادی مشاورتی کونسل بنوایا گیا۔یہ سب سازشیں ناکام ہوتی رہیں کیونکہ پاکستان کے غیورمسلمان بیدار اور ہوشیارہیں۔پنجاب اسمبلی میں اس بل کی بدولت جو ایمان پر اور عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور ماضی میں ان کا تدارک نہیں کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے قادیانیت جیسے فتنے نے زور پکڑا اب اس طرح کے فتنوں کا روکنا ممکن ہو سکے گا۔ چیئرمین علما بورڈ حافظ طاہرمحمود اشرفی کی کوششیں بھی قابل قدر ہیں کہ انہوں نے پنجاب حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور اس طرح یہ بل قانون کا حصہ بن گیا۔ گستاخانہ مواد شائع کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اشتعال دلایا جائے جس طرح ماضی میں مغربی ممالک میں گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے تو یہ خاکے کوئی اظہار رائے کی آزادی نہیں تھے نا ہی یہ ایک دم سے واقعات وقوع پذیر ہوئے بلکہ یہ باقاعدہ ایک منظم سازش ہے اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف کہ انہیں اشتعال دلا کر انہیں دہشت گرد ثابت کیا جائے۔
پاکستان میں مقامی سطح پر فرقہ وارانہ آگ بھی اسی وجہ سے بھڑکتی رہی ہے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے رہے ہیں اور اب بھی بعض مقدس ہستیوں کو آزادی اظہار کی آڑ میں بدنام کرنے کی سازش کی جاتی رہی ہے جس کی بیخ کنی کیلئے یہ بل پیش ہونا اور پھر اس کا قانون کا حصہ بننا نہایت ضروری تھا تا کہ اگر کل کو کوئی اس طرح کا کام کرے تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جا سکے اور کوئی بھی فاسق فاجر اسلام اور مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے سے قبل سو بار سوچے کہ ایسا کرنے سے اسے قانون کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے یہ قانون پاس کر کے ہمیں سکون سے بیٹھ نہیں جانا چاہئے بلکہ جس طرح درد مند اور احساس سے لبریز ممبران اسمبلی نے یہ قانون پاس کیا ہے ایسے ہی اب اس کی رکھوالی کرنا ہمارے علما اور عوام کا فرض ہے کہ وہ ہر ایسے مواد کی نشاندہی کریں جس سے لوگوں کے درمیان تفرقہ پھیلتا ہو یا اسلام اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی توہین کا پہلو شامل ہے تو اس کے بارے میں فوری طور پر متعلقہ حکام کو آگاہ کریں تا کہ ایسے عناصر کو فوری طور پر قابو کر کے ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل کو پورا ہونے سے پہلے ہی جڑسے اکھاڑا جا سکے۔اس حوالے سے اس بل کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں بھی اس طرح کے بل کو پاس کیا جانا چاہئے تا کہ یہ صرف پنجاب کا ہی مسئلہ نہ رہے بلکہ اس پر پورے پاکستان میں قانون سازی ہو سندھ،بلوچستان اور خیبر پی کے کی اسمبلیوں کو اپنی سطح پر اس طرح کی قانون سازی کرنی چاہئے تا کہ پاکستان بھر میں شرپسند عناصر کا قلع قمع کیا جا سکے۔