گیم چینجرتو ہے لیکن……

 گیم چینجرتو ہے لیکن……
 گیم چینجرتو ہے لیکن……

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سی پیک ایسا منصوبہ ہے جس پر تقریباً قومی اتفاق رائے ہے اس کے لئے چین نے جو پیکج دیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ 2000ء کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے پہلی دفعہ چین کے دورے میں گوادر کو ڈویلپ کرنے کی بات کی تھی لیکن چین حکومت نے اس کا کوئی فوری جواب نہیں دیا۔ بعدمیں انہوں نے یہ منصوبہ سنگاپور کی ایک کمپنی کو لیز پر دے دیا لیکن منصوبے پر کوئی کام نہ ہو سکا۔ آصف علی زرداری صاحب نے بھی اپنے دور صدارت میں گوادر کے بارے میں چین سے بات چیت کی لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی لہٰذا دورہ ملتوی ہو گیا پھراپریل 2015ء میں چینی وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اس دورے میں معاملات طے ہوئے اور یوں 14 نومبر 2016ء میں نوازشریف نے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کیا۔


اس منصوبے کے آغاز سے ہی امریکہ اور بھارت اس کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ چین علاقے میں قدم جمائے اور تجارتی راستوں پر قبضہ کرلے۔ بھارت کو بھی سی پیک منظور نہیں کیونکہ اس سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور پاک چین دوستی بھی مضبوط ہو گی۔ لہٰذا پاکستان کو اس عالمی دباؤ کا سامنا ہے مخالفین نے باقاعدہ اس منصوبے کے خلاف ایک منظم مہم چلائی ہوئی ہے۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ اتنا بڑا قرضہ پاکستان ادا نہیں کر سکے گا اور یوں چین گوادر پر قبضہ کر لے گا۔ دوسری طرف بلوچستان کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی کہ اس طرح اُن کے مفادات پر زد پڑے گی۔ نواب اکبر بگٹی کی موت سے بے چینی میں مزید اضافہ ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت سارے لوگوں کو تو یہ یقین نہیں آیا کہ چین بغیر کسی منفی مقصد کے اتنی بڑی سرمایہ کاری کر سکتا ہے میرے خیال میں اب تو انہیں یقین آ جانا چاہئے کیونکہ سی پیک کے لئے تو ابتدائی طور پر 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا پروگرام بنایا گیا تھا اب تو چین نے ہمارے پڑوسی ملک ایران کو 400 بلین ڈالر کا پیکج دیا ہے اور چین اور بھی کئی ملکوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔


2010ء میں مجھے گوادر جانے کا موقع ملا اُس وقت پی سی ہوٹل بن چکا تھا اور پی سی کے مالک سمیت بڑی بڑی پارٹیاں وہاں زمینوں پر سرمایہ کاری کر رہی تھیں۔ اگرچہ اس دوران اُتار چڑھاؤ آتے رہے لیکن مجموعی طور پر منصوبے کے بارے میں توقعات بلند رہیں لیکن پھر حکومت تبدیل ہو گئی کوئی بھی نئی حکومت آئے گی تو اِسے اس قسم کے منصوبوں کی چھان پھٹک میں کم از کم چھ ماہ تو لگ ہی جاتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت شاید کچھ زیادہ عرصہ گومگو کی حالت میں رہی پھر حکومت کے ایک اہم مشیر رزاق داؤد صاحب نے ایک بیان میں کہہ دیا کہ اس منصوبے پر ہمیں کم از کم ایک سال تک کام منجمد کر دینا چاہئے اس سے منصوبے کے سٹیک ہولڈرز اور عام آدمی کے ذہن شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ممکن ہے حکومت منصوبے میں نوازشریف کی کرپشن ڈھونڈ رہی ہو بہرحال کرپشن کا کوئی ثبوت کم از کم پبلک نہیں ہوا لیکن منصوبے کو کچھ نہ کچھ Setback تو لگتا ہے کہ ہو گیا ہے۔اس میں ہمارے ہاں سرمایہ کاری میں بیوروکریٹک رکاوٹوں کا بھی دخل ہو سکتا ہے۔


بہرحال اس وقت گوادر منصوبے کو تین چار مسائل کا سامنا ہے ان میں پانی اور بجلی کا مسئلہ بنیادی ہے۔ گوادر نیشنل گرڈ سے لنک نہیں یہاں بجلی ایران سے لی جا رہی ہے لیکن یہ مسئلے تو ہماری ذمہ داری ہے۔سیکورٹی کا مسئلہ بہت بھی اہم ہے اس کی ذمہ داری فوج نے لی ہوئی ہے لیکن سیکورٹی کے لئے کئے گئے اقدامات کا ایک پہلو یہ ہے کہ خوف و ہراس کی فضاء ہو جاتی ہے پھر لوکل لوگوں کیلئے زندگی کی بہتر سہولتوں کی فراہمی اور ملازمتیں بہت ضروری ہیں یہاں کے مچھیروں کے لئے شاید ابھی تک کچھ نہیں کیا جا سکا۔ فنی تربیت کا ایک ادارہ بنایا جا رہا ہے یہاں سے تربیت لے کر مقامی لوگوں کو روزگار میسر ہو گا لیکن یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ سعودی عرب نے ایک آئل ریفائنری لگانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب خبریں آ رہی ہیں کہ وہ یہ ریفائنری یہاں نہیں لگا رہا۔


زمینوں کی خریدوفروخت کا کام تقریباً ٹھپ ہے۔ بہت سے سرمایہ کاروں نے جن میں ہاشوانی فیملی شامل ہے یہاں زمین خریدی تھی لیکن گوادر کے ماسٹر پلان کی وجہ سے یہ زمینیں حکومت نے لے لی ہیں اس طرح لوگوں کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔ سنگار ہاؤسنگ سکیم جو سرکاری ہے تقریباً 32 سال پہلے شروع کی گئی تھی لیکن آج تک وہاں ایک مکان بھی تعمیر نہیں ہو سکا لہٰذا پلاٹوں کی خریدوفروخت بھی تقریباً بند ہے۔ کیونکہ سرمایہ کار پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ اُن کی نظر زمینی حقائق پر ہوتی ہے۔
سی پیک کے دوسرے منصوبوں میں گوادر سے کوئٹہ تک سڑک بن چکی ہے اور فاصلہ دس گھنٹوں تک سمٹ گیا ہے پہلے دو دن لگتے تھے۔ گوادر سے جیکب آباد اور گوادر سے خیبرپختونخوا تک سڑکیں ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔  گوادر ایئرپورٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ایم ایل ون کا شیخ رشید صاحب نے پروپیگنڈا تو بہت کیا لیکن اب کچھ خاموشی ہے۔ جی سی سی کا 2019ء کے بعد اجلاس ہی نہیں ہوا جس میں منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے۔ بندرگاہ البتہ آپریٹو ہے اور اب آن لائن بھی سامان کی بکنگ کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ سپیشل اکنامک زونز کی بات  چل رہی ہے اور اب شایدرشکئی اور فیصل آباد زونز پر کام شروع ہونے والا ہے۔ہم سی پیک کو گیم چینجر کہہ کر خوش ہو جاتے ہیں اِس خواب کو حقیقت بنانے کیلئے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -