نصیبوں والے پروفسیر خالد مسعود گوندل
لو لگنا ہیٹ سٹروک کا باعث بن سکتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا بچوں، بوڑھوں کو حتی الامکان دھوپ میں نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے، لو سے بچنے کے لئے بار بار بنا پیاس پانی کا وافر استعمال اور سر کو ڈھانپنا ضروری ہے۔
خاکسار نے تو دھوپ سے بچاؤ کے لئے کیپ رکھی ہوئی ہے، چاہے دو فرلانگ دھوپ میں چلنا ہی مقصود کیوں نہ ہو، میری ناقص رائے میں آج کل تو دھوپ میں بنا سر ڈھانپے چلنا گناہ کبیرہ قرار دینا چاہیے۔ میں نے یہ بات شدو مد سے نوٹ کی ہے۔ سڑک پر موٹرسائیکل پر محو سفر لوگوں نے ہیلمٹ تو کجا، رومال، کپڑا، ٹوپی کچھ بھی تو نہیں پہنا ہوتا، پیدل چلنے والے ننگے سر تپتی دھوپ 47 ڈگری درجہ حرارت میں بڑے مزے سے پھر رہے ہوتے ہیں جیسے شالامار باغ میں سیر کرنے آئے ہوں اور پھر جو لوگ شوگر و بلڈ پریشر جو تمام بیماریوں کے والدین ہیں کے عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کا احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر دھوپ میں نکلنا تو کھلے عام موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بد قسمتی سے ہم اس سلسلہ میں کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ڈاکٹرز اور محکمہ صحت والے بیچارے بول بول کر تھک گئے لیکن ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہم میں سے ہر ایک ڈاکٹر اور عالم ہے جس کا عملی مظاہرہ سبھی نے کورونا جیسی خدائی آفت کے دوران دیکھا۔
خیر سے کسی نے ماسک تک لگانا گوارا نہ کیا، ویکسین لگوانے کو یہودی کی سازش قرار دے دیا گیا، اللہ بھلے کرے، ہمارے فرنٹ لائن ڈاکٹرز و طبی عملے کا جن کی شبانہ روز کی محنت رنگ لائی اور ہم بھارت، امریکہ، یورپ، یوکے بننے سے بچ گئے جہاں کہ شمشان گھاٹ لاشوں سے اٹ گئے اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی۔
خاکسار نے پی ٹی آئی حکومت کے کرتا دھرتاؤں سے ایک درخواست کی تھی کہ جو ڈاکٹرز اور طبی عملہ کورونا میں فوت ہو گئے ان شہدا کی یاد کا ایک دن رکھا جائے جس میں شہدا کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ان کے خاندانوں کو عزت و اکرام سے نوازا جائے اور خصوصی میڈل شہدا کے نام کئے جائیں کہ ہم اپنے شہیدوں کو بھولنے والے نہیں۔ اس کے ساتھ طبی اداروں کے سربراہان کی جنھوں نے کورونا میں سر دھڑ کی بازی لگا دی خصوصی ستائش کی جائے۔
صد افسوس! گزشتہ حکومت نے ناچیز کے قیمتی مشورہ کو ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا، امید برآں ہے کہ پنجاب کی تقدیر بدلنے کے خواہاں نوجوان ایکٹو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب حمزہ شہباز شریف کورونا کے شہدا کی لاج ضرور رکھیں گے۔ خیر بات کر رہا تھا۔ کورونا کے حوالہ سے مخلوق کی خدمت کے ریکارڈ قائم کرنے والے اللہ کے پسندیدہ بندوں کی، افراتفری کے اس دور میں بدبخت کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں پہلی بار ٹیلی میڈیسن کا شعبہ قائم کیا گیا، 24/7 مریض و لواحقین اپنے مرض بارے سپیشلسٹ ڈاکٹرز سے بلامعاوضہ مشورہ کر سکتے تھے، اس شعبہ کو قائم کرنے کا سہرا باکمال لاجواب ایمان داری کی عمدہ مثال جناب پروفسیر خالد مسعود گوندل کے سر ہے۔
چونکہ بندہ ناچیز نے کورونا کو بھگتا، میں بخوبی جانتا ہوں کہ کس طرح میرے کلاس فیلوز، جونیئر،سینئرز کو کورونا نے اگلے جہاں منتقل کر دیا، میرا بس چلے تو میں کرشماتی، طلسماتی شخصیت کے مالک جناب پروفسیر خالد مسعود گوندل کو دنیا کے سب سے بڑے میڈل کا حق دار اس لئے بھی قرار دوں کہ آپ نے لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے جو کام کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی، مجھے اچھی طرح یاد ہے، آج سے 4 سال پہلے پروفیسر گوندل صاحب نے فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی سے جب استعفیٰ دیا، ہر آنکھ اشکبار تھی، ایک مالی، نائب قاصد سے لیکر ہاؤس آفیسر، پی جی آرز، ایس آر، اے پی، ایسوسی ایٹ و پروفیسر صاحبان کی آنکھوں کی جھڑی ایسی تھی کہ رکنے کا نام نہ لے رہی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے تو جناب گوندل صاحب کی قسمت پر رشک آیا کہ ایسی محبت تو شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو گی، روشن ستارے کی طرح جگمگانا، لوگوں کے دلوں پر راج کرنا، ہر کسی کے مقدر میں کہاں، میں نے سوچا کہ جس بندے کے ساتھ لاکھوں شاگردوں کی دعائیں ہوں اس کی تقدیر کیسی ہو گی…… اور تو اور میری زوجہ محترمہ جن کے گوندل صاحب معالج ہیں، رات کے پچھلے پہر آنسووں کے ساتھ رب کے حضور دعا کرتی رہی کہ خدا پروفیسر صاحب کے لئے جو کرے اچھا کرے اور پھر سب نے دیکھا، اللہ نے نیک نیت جناب گوندل صاحب کو انہی کے مادر علمی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدہ پر پہنچا دیا۔
آپ کی تعیناتی کے بعد تو جیسے کے ای ایم یو کے بھاگ جاگ گئے۔
آپ کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز کے روح رواں تو ہیں، اندرون و بیرون ملک ڈاکٹرز آپ کی آنر میں کھڑے ہو جاتے ہیں، بیرون ملک سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے آپ کا نام سر فہرست آتا ہے، آپ کی قیادت میں اجتماعی محنت کا ثمر یہ ہے کہ کے ای ایم یو 2020 کی ٹائم آف ہائر ایجوکیشن میں پہلا اور ورلڈ رینکنگ یونیورسٹیز میں بائیسواں نمبر آیا، آپ کے زیر سایہ مقبول احمد بلاک کے ای کالج کے فارغ التحصیل طلبا کے فنڈز سے بنی شاہکار نئی عمارت یونیورسٹی کا طرہ امتیاز ہے، گرلز ہاسٹل، مرید کے، نارووال کیمپس، سرجیکل ٹاور کو چلانا اور بہت سے کام کئے جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
چند دن پہلے راقم کو پرنسپل کالج آف آفتھلمولوجی کے ای ایم یو پروفیسر زاھد کمال صدیقی نے جناب گوندل صاحب کی ریٹائرمنٹ کی الوداعی تقریب میں مدعو کیا جہاں شرکا نے ڈاکٹرز کمیونٹی کے سر کے تاج پروفسیر خالد مسعود گوندل کو قدرت کا دیا ہوا انمول تحفہ قراردیا، میرے سامنے 4 سال پہلے والا وہی سماں وہی منظر دہرایا جا رہا تھا، ہر دل غمگین اداس تھا جیسے ان کا باپ ان سے جدا ہو رہا ہو، یونیورسٹی کا ہر شعبہ جناب گوندل کی بے لوث محبت میں تقریبات کا اہتمام کر رہا تھا، جناب گوندل صاحب کی ریٹائرمنٹ پر میرے ایک دوست شہزاد مغل ایڈووکیٹ نے کہا، آپ نصیبوں والے جناب پروفیسر خالد مسعود گوندل بارے کیا کہیں گے، میں نے کہا، میرا بس چلے تو میں ہر دل عزیز استاد محترم جناب پروفسیر خالد مسعود گوندل کو کے ای ایم یو کا تاحیات وائس چانسلر بنا دوں کہ ایسے گوھر نایاب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے، اللہ سوہنا آپ کو نظر بد سے محفوظ فرمائے آمین۔