گڈ بائی شاویز

گڈ بائی شاویز
گڈ بائی شاویز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز کی موت کا غم دُنیا بھر میں منایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ شاویز کے ساتھ دُنیا بھر کی رشتہ داری تھی۔اُس کی صرف ایک وجہ تھی کہ وہ بندہ ” نَر“ تھا۔ دلیر اور بہادر آدمی کی ہمیشہ قدر کی جاتی ہے، جس طرح سے ایک چھوٹے سے ملک کا صدر اپنے ملک اور اپنے عوام کے لئے دُنیا کی ایک سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہو گیا، اُس کی یہ ادا لوگوں کو بھا گئی اور لوگ اس کے گرویدہ ہو گئے۔ ہیوگو شاویز کیوبا کے مرحوم صدر فیڈل کاسترو کا دوست تھا۔ دونوں امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے، لیکن دونوں طبعی موت مرے ہیں۔ دونوں اپنی قوم سے محبت کرنے والے تھے۔ دونوں یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔ ہیوگو شاویز فوجی تھا، وہ جس انداز سے حکومت میں آیا، شاید مہذب قومیں اس کی متحمل نہیں ہو سکتیں، لیکن وہ جس انداز سے حکومت چلاتا رہا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ اُس کی نیک نیتی اور خلوص کو بھانپتے ہوئے وینزویلا کے عوام کی اس کے لئے ناپسندیدگی بھی پسندیدگی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے گزشتہ انتخابات میں بھی اسے ہی صدر منتخب کیا۔
 ہیوگو شاویز نے اپنی قوم کے دیئے گئے ووٹوں کی عزت رکھی، وہ کہیں بھی جاتا، کوئی بھی بات کرتا، اُس کی قوم کو یقین ہوتا کہ وہ اُن کے لئے بات کرے گا اور اپنی قوم کو کبھی شرمندگی سے دوچار نہیں ہونے دے گا۔ بانی ¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ انگریزوں سے بڑھ کر انگریزی بولتے تھے۔ وہ ہزاروں کے مجمعے سے انگریزی میں خطاب کرتے۔ ظاہر ہے برصغیر کے مسلمان اُن کی کہی ہوئی ہر بات سمجھنے سے عاری تھے، لیکن وہ اتنے انہماک سے تقریر سنتے تھے جیسے سب کچھ سمجھ آ رہا ہو۔ کسی نے جلسے میں بیٹھے ایک کارکن سے پوچھا کہ تمہیں پتہ ہے جناح انگریزی میں کیا کہہ رہا ہے، تو اُس نے جواب دیا، نہیں لیکن مجھے یقین ہے وہ جو بھی کہہ رہا ہے اُس میں ہماری بھلائی پوشیدہ ہے۔ ووٹ تو ہمارے عوام بھی دیتے ہیں، لیکن اُن کے منتخب کردہ لوگ انہیں کئی جگہوں پر ڈِچ کرتے ہیں،کوئی معاہدہ کریں اُس میں کمیشن کھاتے ہیں، ملک کے مال و دولت کو لوٹتے ہیں، عوام کے پیسے سے عیاشی کرتے ہیں، کوئی ادارہ پکڑنا چاہے تو بدمعاشی کرتے ہیں، بڑے بڑے ملزمان، جن کے نام ای سی ایل پہ ہوتے ہیں۔ بڑی تمکنت سے ایئر پورٹس سے کلیئر ہو کر نکل جاتے ہیں۔
اس وقت ملک میں مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بجلی نہیں ہے، گیس ندارد، آٹا غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوتا چلا جا رہا ہے، لوگ جینا چاہتے ہیں، لیکن انہیں مارنے والوں کا عزم زیادہ پختہ لگتا ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ(ق) کے ایک رہنما یار محمد رند نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ہر ممبر پارلیمنٹ کو ایک ارب27کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر اُن کے حلقوں کے عوام یہ کہتے ہیں کہ حکومت اُن کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کرتی، تو اُن کی بدقسمتی ہی ہو سکتی ہے۔ایک ارب27کروڑ سے کم از کم ان حلقوں میں چند سڑکیں، سکول اور کچھ ترقیاتی کام تو ہو سکتے تھے، جو کام رہ جاتے وہ اگلی بار منتخب ہونے والی حکومت کروا دیتی۔ اگر ممبر پارلیمنٹ ایک ارب27 کروڑ کی گرانٹ کو اپنی ”ذاتی رقم“ سمجھ کر اپنے اکاﺅنٹ میں جمع کروا لیں گے، تو حلقے کے غریب لوگوں تک ترقی کے ثمرات کیونکر پہنچ سکتے ہیں؟
 آج کے کالم کا مقصد اپنی محرومیوں کا رونا رونا نہیں تھا۔ مَیں تو ایک بہادر آدمی کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا تھا،جو اپنے جسم کے اندر موجود کینسر سے بھی لڑ رہا تھا اور دُنیا کو لاحق ایک بہت بڑے کینسر کے ساتھ بھی نبرد آزما تھا۔ ہیوگو شاویز واحد آدمی تھا جو کھلے عام امریکہ اور اس کے سابق صدر جارج بش پر تنقید کی جرا¿ت رکھتا تھا۔ ایرانی صدر احمدی نژاد بھی کبھی کبھار کوئی نعرہ¿ مستانہ بلند کر دیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ حکمران ایسے ہوں ، جو کسی دوسرے حکمران کے ”ہتھیں“ پڑ جائیں، بلکہ یہ کہ اُن کی شخصیت میں اتنا دم ہو کہ وہ پوری مضبوطی کے ساتھ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو کر دُنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے خلاف بھی آواز بلند کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صرف وہی اپنی بات کر سکتے ہیں، جن کا اپنا کردار اتنا مضبوط ہو کہ کوئی اُن کی طرف انگلی اُٹھانے کی جرا¿ت نہ کر سکے۔ایران کے صدر احمدی نژاد نے اپنے بیٹے کا ولیمہ کیا، تو پوری دُنیا نے وہ تصاویر دیکھیں، جن میں وہ چند لوگوں کے ساتھ قالین پر بیٹھے دعوت ”اڑا“ رہے تھے۔ کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کے حوالے سے کہیں پڑھا تھا کہ انہیں ایک وفد ملنے گیا۔تو سرکاری دفاتر کی تیسری منزل کے ایک کونے میں صدر کا دفتر دیکھ کر حیران رہ گیا۔
 وہ غریب ملک جس سے توانائی کا جن بھی قابو نہ آ رہا ہو، وہاں صدر، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے لئے کئی کئی عمارتوں کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر اُن کی تزئین و آرائش کروائی جاتی ہے۔ سرکاری رہائش گاہ کا سٹیٹس ملنے کی بدولت وہاں ہونے والے تمام خرچے بھی ”سرکاری“ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کاسترو، شاویز اور احمدی نژاد جیسے لوگ ”بے وقوف“ ہی لگتے ہیں، لیکن اُن پر پیار بھی آتا ہے کہ وہ اچھی خاصی”لُٹ“ ڈالنے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود”لُٹ“ ڈالنے میں ناکام رہے۔ پتہ نہیں ان لوگوں کے مرنے کے بعد ان کے بچوں کا کیا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ ان کے بچے ٹیوشن پڑھا پڑھا کر گزارہ کریں۔ بہرکیف اگر اُن کے والدین نے اپنے بچوں کی فکر نہیں کی، تو ہمیں کیا ضرورت ہے ٹینشن لینے کی؟.... ایک بات بہرحال ضروری ہے کہ دُنیا میں مال و متاع اور ظاہری نمود و نمائش صرف وقتی ضرورت ہے، لیکن تاریخ ایسے ہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے، جن کا دامن بے داغ اور کردار خطرناک حد تک مضبوط ہوتا ہے۔ ہیوگو شاویز بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا، اِسی لئے اس کی قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ اُس کا جسدِ خاکی محفوظ کر کے میوزیم میں رکھا جائے گا۔ ہیوگو شاویز دلعزیز تھا۔ وہ مرنے کے بعد اور بھی معتبر ہو گیا ہے.... ”گڈبائی شاویز“!  ٭

مزید :

کالم -