تخریب کاری کے اصل مراکز
پاکستان میں تخریب کاری کون کروارہاہے؟کیا دہشت گرداتنے طاقتور ہیں کہ وہ ہربار دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج اور گیارہویں پاورفل آرمی تک کوچکمہ دے جاتے ہیں؟آخر کیوں دہشت گردی کی زیادہ واردتیں پاکستان میں ہوتی ہیں؟پاکستان کے پڑوسی ممالک بھار ت اورایران کیوں کردہشت گردی کا شکارنہیں ہوتے اور کیسے یہ ممالک دھماکے اور تخریب کاری کی کاروائیوں سے محفوظ ہیں؟۔یہ وہ سوالات ہیں جو گزشتہ 15سالوں سے ہرپاکستانی کے ذہن میں اُبھرتے ہیں اور ہرپاکستانی ان کے جوابات تلاش کرنے کی سعی کرتا ہے،لیکن تسلی بخش جواب کہیں سے نہیں مل پاتا۔
عام طور پرہمارے ہاں تخریب کاری اور دہشت گردی کو افغانستان اورامریکاجنگ سے جوڑا جاتاہے یاپھرشدت پسندوں کی ذہنی فکر کو دہشت گردی کا موجب ٹھہراکرآنکھیں موند لی جاتی ہیں۔جب کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے اصل مراکز پر کبھی غور نہیں کیا جاتا اور اگر کبھی ان مراکز پر بات ہوبھی جائے تو محض رسمی بیان بازی سے آگے کچھ نہیں کیا جاتا۔یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کا نقصان پاکستانی قوم سالہا سال سے بھگت رہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ملکی استحکام کے لیے داخلی اور خارجی امن دونوں بہت ضروری ہیں۔داخلی امن کا انحصار ہمیشہ خارجی امن پر ہوتاہے اورخارجی امن میں ملکی سرحدیں ا ور ہمسایہ ممالک مرکزی کردار اداکرتے ہیں۔بدقسمی سے پاکستان کو ہمیشہ خارجی امن کے ان دوکرداروں سے نقصانات کا سامنا رہاہے۔اس وقت پاکستان کا داخلی امن انہیں دوکرداروں کی وجہ سے متزلزل ہے۔چنانچہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ جڑی پاکستان کی سرحدوں ہی سے تخریب کاری اور دہشت گردی کی کاروائیاں ملک میں ہورہی ہیں،جس کا اظہار پاکستان کے خفیہ ادارے اور حکومت کرتی رہی ہے۔پاکستان کی سرحدیں چار ہمسایہ ممالک انڈیا،ایران افغانستان اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔یہ سرحدیں 6974کلومیٹر طویل ہیں،جن میں انڈیا کے ساتھ 2912،ایران کے ساتھ 909،افغانستان کے ساتھ2430اور چین کے ساتھ 523کلومیڑ کی سرحدیں شامل ہیں۔بحیرہ عرب کے ساتھ جڑی پاکستان کی سرحدکی طوالت1046 کلومیڑہے۔اس کے علاوہ ایران کی چاہ بہار پورٹ پاکستان کی گوادر پورٹ سے صرف ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ جڑی ان سرحدوں میں سب سے زیادہ افغان سرحدپھر انڈیا اورایران کی سرحد سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کاروائیاں ریکارڈ کی جاتی رہی ہیں۔جس کاجواب پاکستان وقتاًفوقتاًان کارروایوں کے بعددیتارہاہے۔حال ہی میں پاکستان میں پے درپے دہشت گردی کے المناک سانحات رونما ہوئے ۔دہشت گردی کے ان واقعات کا اصل مرکز افغانستان کی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقے بتائے گئے،جہاں پاک فوج نے دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیا۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے سے پہلے دہشت گردی کے ان مراکز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتیَ؟ ۔دیکھا جائے تو چین کے علاوہ پاکستان کے تینوں ہمسایہ ممالک افغانستان میں ایک پیج پر جمع ہیں۔تینوں کے باہمی تعلقات کی گہرائی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ تینوں ایران کی چاہ بہار پورٹ میں شریک ہیں اور گزشتہ سال تینوں ممالک اس پربھاری ڈیل کرچکے ہیں۔جب کہ ایران اور بھارت افغانستان میں اس قدر مؤثر ہوچکے ہیں کہ وہاں کے انفراسٹرکچرا ور ترقیاتی کاموں میں یہی سرمایہ کاری کررہے ہیں ،افغان پولیس،فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ بھی گہرے مراسم ہیں،چنانچہ ان کے قونصل خانے بڑے پیمانے پر افغانستان میں کام کررہے ہیں۔ان حالات میں ہر باشعور یہ سمجھ سکتا ہے کہ افغان سرحد سے پاکستان میں تخریب کاری کون کررہاہے اور تخریب کاری کے اصل مراکز کیا ہیں ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم "پڑوسی ممالک کو ناراض نہیں کرسکتے"ایسے فلسفے سے باہر نہیں نکلتے ۔بھلے پڑوسی ممالک ہمارا خون بہاتے رہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا کسی بھی ملک کے مستحکم رہنے کے لیے ضروری ہوتاہے۔لیکن جب پڑوسی ممالک سے ملک عدم استحکام کا شکار ہورہاہو تب ان تعلقات پر غور کرنا اور اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی کو نئے خطوط پراستوار کرنا بہت ضروری ہوتاہے۔اچھاہوا کہ پاک فوج نے افغانستان اور انڈیا کی سرحدوں پر مانیٹرنگ اور سیکورٹی کی طرح ایران کے ساتھ جڑی پاکستان کی سرحد پر بھی مانیٹرنگ اورسیکورٹی سخت کرنے اور آپریشن رد الفساد کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے،تاکہ بلوچستان کے امن سمیت ملکی امن وامان پراثرانداز ہونے والے عناصر پرقابوپایاجاسکے۔لیکن اس فیصلے پر سختی سے کاربند رہنا بہت ضروری ہے اور پڑوسی ممالک کی طرف سے چاپلوسانہ ڈپلومیسی کی چالوں کو سمجھ کراس کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔کیوں کہ ماضی میں کئی بارہماری خارجہ پالیسی چاپلوسانہ ڈپلومیسی کا شکار ہوتی رہی ہے،جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ 80ء کی دہائی میں اسلحے سے بھری ایک ٹرین پڑوسی ملک سے پاکستان آتے ہوئے پکڑی گئی، اگلے دن ایران کے صدر علی خامنائی جو اِس وقت ایران کے مرشد اعلٰی ہیں پاکستان آگئے، تاکہ وفاداری پر شک نہ کیا جائے۔حال ہی میں بھارتی تخریب کار کلبھوشن ایران سے پاکستان آتے ہوئے پکڑا گیا جو 2003ء سے ایران میں مقیم تھا۔پاکستان نے ناراضگی کااظہار کیا تو چنددن بعدپڑوسی ملک کے صدرازخودیقین دلانے پاکستان چلے آئے کہ پڑوسی ملک کااس میں کوئی ہاتھ نہیں وہ تو پاکستان کاخیرخواہ ہے۔جب کہ یہی پڑوسی ملک ہے جہاں سے عزیر بلوچ،مہدی موسوی،بابالاڈلا،سابق طالبان رہنماملااختر منصورجیسے لوگوں کو کندھا دیا جاتارہاہے اور طالبان و القاعدہ کے اسی پڑوسی ملک میں ٹھکانوں پر عالمی میڈیا میں ہمیشہ شوربرپاہوتارہاہے،بلوچستان میں را کی تخریب کاری پر پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں بھی اسی پڑوسی ملک کو دوش دیتی رہی ہیں۔اسی طرح بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستا ن میں تخریبی کاروایاں اور دہشت گردوں کو بھار ت کا سپورٹ کرنا بھی سب کے سامنے ہے،لیکن اس کے باوجود ہمارے حکمران ہیں کہ ان کے لیے اپنے دروازے وا کیے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے پرمارتے رہتے ہیں۔
بات یہ نہیں کہ ان پڑوسی ممالک سے جنگ کی جائے یا ان سے تعلقات خراب کیے جائیں،بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ان سے ہاتھ ملا کراس طورپردوٹوک مؤقف اپنایاجائے کہ اپنے مفادات پر آنچ نہ آنے دی جائے، عوام اور ملک کا امن متزلزل نہ ہونے دیا جائے۔لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسے عناصر موجود ہیں جو ہمارے کم،اوروں کے زیادہ ہیں۔یہی وجہ کہ پڑوسی ممالک کی طرف سے ملک میں ہونے والی تخریب کاری اوردہشت گردی پر دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت گزشتہ 15سالوں سے قابو نہیں پاسکی۔اس لیے سب سے پہلا کام ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور پھر پڑوسی ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی سطح پراز سرنو تعلقات قائم کرناہوں گیاور جو کوئی ان تعلقات سے ناجائز فائدہ اٹھائے تو اسے سمجھانے کے لیے بغیر کسی تامل کے بھرپورجواب دینا ہوگا۔ملکی امن وامان اورسی پیک جیسے تاریخی منصوبے کی کامیابی کے لیے یہ کام نہایت ضروری ہے،ورنہ ہمیشہ کی طرح پڑوسی ممالک سکون سے جیتے رہیں گے اور ہم ہربارکفِ افسوس مل کرعوام سمیت دنیا کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں گے کہ پاکستان پرامن ملک ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔