مشکلات سے پاک معاشرہ

مشکلات سے پاک معاشرہ
مشکلات سے پاک معاشرہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


معذور افرادہمہ وقت بہت سی مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ مشکلات سے پاک معاشرہ ان کا بنیادی حق ہے۔ یوں تو ہم کہتے ہی ہیں کہ معذور افراد ہمارے معاشرے کا ایک کار آمد طبقہ ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ انہیں معذور نہ کہا جائے، بلکہ وہ خصوصی افراد یا اسپیشل پرسن ہیں۔

پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا تقریباً 13فیصد ہیں۔ ان کے مسائل حل کرنے کے لئے کوئی مخصوص ادارہ موجود نہیں ہے اور نہ ان سے متعلقہ کوئی وزارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مسائل کی کوئی شنوائی نہیں۔

اگر حکومت پاکستان معذور افراد کے لئے کوئی محکمہ بنا دے اور ان کی وزارت ان کی سرپرستی کرے تو ملک بھر کا کوئی بھی معذور بے یار و مدد گار نہ رہے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ قائد کے پاکستان میں معذور افراد کو اپنے مسائل حل کروانے کے لئے مختلف اداروں میں ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں مگر مسائل حل نہیں ہوتے۔

اکثر و بیشتر مختلف اداروں میں یہ بات مشاہدہ میں آتی ہے کہ گونگے بہرے اپنا مسئلہ لے کر سارا سارا دن دفاترمیں بھٹکتے رہتے ہیں مگر ان کے مسائل سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حکومت کو چاہئے کہ ہر دفتر میں اشاروں کی زبان سمجھنے والے ملازمین بھی بھرتی کرے جو اُن کی زبان سمجھ کر ان کے مسائل کے حل میں افسرانِ بالا کو مدد دیں۔ بہت ساری ملکی و غیر ملکی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) بھی موجود ہیں جو اُن خصوصی افراد کی فلاح و بہبود اور بحالی کے لئے کام کررہی ہیں۔ مگراس کے علاوہ ایک اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ وہیل چئیر استعمال کرنے والے خصوصی افراد کے لئے آمد و رفت کے بہت مسائل ہیں۔


ہمارے شہروں میں ان کے لئے سٹرک سے لے کر دفاتر، بازار، شاپنگ مالز، پارکس، گویا ہر جگہ دشواریاں ہیں۔ سڑک پار کرنے کے لئے علیحدہ جگہیں نہیں، پارکوں میں سیر کے لئے ریمپ نہیں اور نہ ہی بس اسٹینڈ ز/ریلوے اسٹیشنوں پر کوئی ایسی سہولتیں موجود ہیں۔

سب سے بڑا عذاب کا منظر تو وہاں دکھائی دیتا ہے جہاں معذور افراد کو اپنے مسائل کے حل کے لئے ان افسران کے پاس جانا پڑتا ہے جن کے دفاتر ایسی عمارتوں میں ہیں جہاں لفٹ نہیں ہوتی اور انہیں بالائی منزلوں پر سیڑھیوں کے ذریعے جانا ہوتا ہے۔

ان لوگوں پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہے۔ اگر کسی شخص نے اپنی فریاد سنانے یا اپنے کسی مسئلہ کے حل کے لئے افسرانِ بالا تک رسائی حاصل کرنا ہوتو بغیر سہارا لئے وہ لوگ وہاں تک ہرگز نہیں پہنچ پاتے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومتِ پاکستان ملک میں ریلوے کی ترقی کے لئے اربوں روپے خرچ کررہی ہے۔

اکثر ریلوے اسٹیشنوں پر آج کل تعمیراتی کام ہوتے دکھائی دیتے ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہیل چئیر استعمال کرنے والے مسافروں کے لئے کوئی ایسی جگہیں نظر نہیں آتیں جہاں سے وہ ایک پلیٹ فارم سے پُل پار کر کے دوسرے پلیٹ فارم تک پہنچ جائیں۔ لاہور ریلوے اسٹیشن ہی کو دیکھ لیں۔

یہ پاکستان کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن ہے مگر اس پر بھی وہیل چئیر استعمال کرنے والے معذور یا بیمار افراد کے لئے کوئی ریمپ نہیں بنائے گئے۔ پچھلے دنوں اپنے پچھتر سالہ والد صاحب جو کہ دل کے مریض بھی ہیں کے ساتھ میرا ریل کے ذریعے لاہور سے بہاولپور تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔

لاہور اسٹیشن میں داخل ہوکر پلیٹ فارم نمبر 4پر جانا تھا۔ وہاں پر پہنچنے کے لئے بہت ساری سیڑھیاں چڑھنا تھیں۔ سانس کی تکلیف اور دل کے مرض میں مبتلا بوڑھے آدمی کے لئے سیڑھیاں چڑھنا بہت دشوار تھا۔ میں بہت پریشان ہوا کیوں کہ اتنی سیڑھیاں چڑھنا میرے والد صاحب کی صحت کے لئے انتہائی خطر ناک ثابت ہوسکتا تھا۔

بالآخرپلیٹ نمبر 1پر ہی چلتے چلتے ایک لمبا فاصلہ پیدل طے کرنے کے بعددوسری طرف متعلقہ پلیٹ فارم پر پہنچے۔ یہی صورت حال پھر بہاولپور کے ریلوے اسٹیشن پر بھی تھی۔ اس آپ بیتی سے ذہن میں خیال اور دل میں درد اُن لوگوں کے لئے پیدا ہوا جو وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ تمام ریلوے اسٹیشنوں، پلازوں ، دفاتر، پارکوں، بازاروں، شاپنگ مالز، سڑکوں وعوام کے استعمال کی ان تمام جگہوں پر ریمپ بنے ہوں جہاں سیڑھیاں بنی ہیں، تاکہ وہیل چئیر استعمال کرنے والے خصوصی افراد بغیر کسی سہارے کے خودمختاری کے ساتھ اپنے کام نمٹا سکیں اور ان کا احساسِ محرومی مدھم پڑجائے۔

مزید :

رائے -کالم -