سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا منصب پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گا

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا منصب پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گا
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا منصب پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے لئے سینیٹر شیری رحمان کو نامزد کر دیا ہے، اِس سے پہلے تحریک انصاف کی جانب سے یہ اعلان سامنے آ چکا ہے کہ اس عہدے کے لئے وہ اپنا امیدوار لائے گی، دونوں جماعتوں نے جس اتفاق رائے سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کیا تھا لگتا ہے وہ اب باقی نہیں رہا، کیونکہ تعاون کا جو جذبہ انتخاب کے موقع پر نظر آ رہا تھا وہ وقتی تھا، عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اُن کی جماعت یہ چاہتی ہے کہ سینیٹ کا چیئرمین بلوچستان سے آئے اور ڈپٹی چیئرمین فاٹا سے ہو، لیکن وہ اپنے اس اعلان کے نصف حصے پر ہی قائم رہ سکے، پیپلزپارٹی نے جب چیئرمین کے لئے صادق سنجرانی کی حمایت کی تو نائب چیئرمین کے لئے اپنا امیدوار سلیم مانڈوی والا کو بنا لیا جن کا تعلق سندھ سے ہے، یوں فاٹا کے لئے عمران خان کی محبت اور دورانیہ زیادہ طویل نہ ہو سکا اور تحریک انصاف کے تمام سینیٹروں نے سلیم مانڈوی والا کو بھی ووٹ دے دیا، دونوں عہدوں کے الیکشن میں جذبہ خیر سگالی کا یہ اظہار مسلم لیگ (ن) کی دشمنی میں تھا جس نے بہرحال کام دکھایا، لیکن اب جبکہ قائد حزب اختلاف کا تقرر ہونا ہے تو دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوار لانے کا اعلان کر دیا ہے، پیپلزپارٹی نے تو شیری رحمان کو نامزد بھی کر دیا ہے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا، یہ ممکن ہے یہ مسئلہ بھی اتفاق رائے سے حل ہو جائے اور اگر نہ ہو سکا تو بھی قائد حزب اختلاف کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی اکثریت سے فیصلہ ہو جائے گا۔ ایسا ہی مسئلہ اس وقت اُٹھا تھا جب 2013ء کے الیکشن کے بعد قائد حزب اختلاف کے تقرر کا معاملہ سامنے آیا تھا، اس وقت بھی تحریک انصاف چاہتی تھی کہ قائد حزب اختلاف کا منصب اس کے حصے میں آنا چاہئے کیونکہ وہی ’’حقیقی اپوزیشن‘‘ ہے، سپیکر نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن ارکان کی اکثریت جسے قائد حزب اختلاف بنانا چاہتی ہے یہ منصب اسی کے حصے میں آ جائے گا، چنانچہ خورشید شاہ قائد حزب اختلاف بن گئے اور اب تک چلے آ رہے ہیں البتہ کچھ عرصہ پہلے تحریک انصاف نے اپنا قائد حزب اختلاف بنانے کے لئے ایک کوشش اور کی تھی۔ وہ بھی جلد بازی کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ خورشید شاہ نے خوشدلی سے کہا کہ وہ اپنا اپوزیشن لیڈر لانا چاہتے ہیں تو لے آئیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں، تحریک انصاف نے جن اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کیا، اُنہوں نے بھی کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا، اُن کا عمومی طور پر جواب یہ تھا کہ خورشید شاہ اپنے عہدے سے انصاف کر رہے ہیں اور کسی اپوزیشن جماعت کو اُن سے کوئی شکایت بھی نہیں اس لئے انہیں خواہ مخواہ کیوں ہٹایا جائے۔ یوں عمران خان کی قائد حزب اختلاف بننے کی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی، اب آپ یہ پوچھ سکتے ہیں کہ عمران خان کو بیٹھے بٹھائے اپوزیشن لیڈر کا منصب ہتھیانے کی کیا سوجھی؟ اس کا ایک پس منظر تو یہ ہے کہ دھرنے کے دنوں میں کنٹینر سے اپنے خطابات میں عمران خان، خورشید شاہ کو وزیراعظم کا منشی کہا کرتے تھے اور حکومتی ارکان کے ساتھ ساتھ اپوزیشن لیڈروں کو بھی رگیدا کرتے تھے، ویسے تو انہوں نے سینکڑوں مرتبہ کہا کہ 2014ء انتخابات کا سال ہے لیکن جب سال پر سال گزرتے رہے، انتخابات نہ ہوئے اور 2017ء آ گیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے انہیں ایک مرتبہ پھر یقین ہو گیا کہ اس سال انتخابات ہو سکتے ہیں بلکہ انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا بھی مطالبہ کر دیا، نوازشریف کی نااہلی کے بعد وہ تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ کرنے لگے کہ قبل از وقت نئے انتخابات کرائے جائیں، لیکن کسی جماعت نے اس مطالبے کی حمایت نہ کی، پھر کسی نے اُن کے کان میں پھونکا کہ الیکشن سے پہلے قائد حزب اختلاف کو بدلنے کی کوشش کی جائے کیونکہ نگران وزیراعظم کا تقرر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہوگا۔ اس لئے اگر عمران خان الیکشن سے پہلے قائد حزب اختلاف بن گئے تو اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم لا سکیں گے۔ اسی مقصد کے لئے اُنہوں نے ایم کیو ایم سے بھی رابطہ کیا جس پر اُنہوں نے اپنی پارٹی کی ایک خاتون رہنما کے قتل کا الزام بھی لگایا تھا لیکن اس میں انہیں کامیابی نہ ہوئی اور خورشید شاہ اب تک قائد حزب اختلاف ہیں۔
اب سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا معاملہ سامنے آیا ہے تو تحریک انصاف نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے لیکن تحریک انصاف نے اگر چیئرمین کے انتخاب میں پیپلزپارٹی سے تعاون کیا تھا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ جواب میں بھی کسی خیرسگالی کا مظاہرہ کرے، اس وقت تو ہاتف غیبی کی آواز پر کان دھرا گیا تھا، وہ معاملہ ختم ہو گیا، اب ضروری نہیں کہ قائد حزب اختلاف کے انتخاب کے لئے بھی کسی الہ دین کا چراغ رگڑنے کی ضرورت پیش آئے، اب تو فارمولا سیدھا سا ہے اپوزیشن جماعتوں کے اکثریتی ارکان اپنے قائد کا انتخاب کر سکتے ہیں، ویسے بھی اپوزیشن لیڈر کا تعلق حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت سے ہوتا ہے جو اس وقت پیپلزپارٹی ہے، اس لئے تحریک انصاف کی کامیابی کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی امیدوار کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر

مزید :

تجزیہ -