مصلحت کیسی؟
پچھلے حج کے دنوں کی بات ہے کہ وقوف عرفات کے موقع پر میں اور میرے ساتھ کمرے میں ٹھہرے دوستوں نے مسجد نمرہ میں جاکر براہ راست امام صاحب کا خطبہ سننے کا شوق پالا۔ ظاہر ہے مڈل کلاس میں ایک ہی دفعہ حج کا موقع ملنا غنیمت ہوتا ہے اور ہم اس تجربے کو تشنہ رہتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے، لہٰذا فیصلہ کیا اور نکل کھڑے ہوئے!وہ علیحدہ بات ہے کہ واپسی پر راہ بھٹک گئے، چلتے چلتے اعصاب شل ہوگئے اور بڑی مشکل سے معجزاً واپس پہنچے، لیکن فی الحال تو بات خطبہ سننے جانے کی ہورہی ہے۔
واپسی کی نہیں، تو جناب ہم پوچھتے معلوم کرتے چلتے گئے بالآخر دور سے ہی مسجد نمرہ کے مینار نظر آئے، بڑی تگ و دو کے بعد دروازے میں جگہ ملی خیر! اُسی کو غنیمت جانا، لیکن بھلا ہو چند بدوقبائل کا کہ اُن کے ایک دھکے نے سیکیورٹی حصار توڑ دیا اور ہماری قسمت کھول دی، جب حواس بحال ہوئے تو ہم بیچ صحن کے ہاتھ باندھے موجود تھے، البتہ اس دھکے میں کہاں گرے، کہاں کچلے گئے، دوست کہاں رہ گئے کچھ یاد نہ رہا۔ یاد رہی تو امام صاحب کی دعا! اسلام کے لئے مانگتے ہیں، وہی رقت بھری دعا جوہر ملک میں براہ راست نشر کی جاتی ہے، جو اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنتی ہے، دعا طویل سے طویل تر ہوتی جارہی تھی اور ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا تھا، دل کہہ رہا تھا یا اللہ کشمیری مسلمانوں کے لئے بھی چند جملے، چند مرہم، چند الفا٭۔۔۔گویا عراق، شام، فلطین، برما سارے جہاں کا درد ہماری زباں پر تھا، نہ تھا تو اپنا درد نہ تھا، لیکن یہ کیا ہوا؟ دعا ختم ہوگئی آنکھوں سے آنسو بے چارگی میں لُٹے مسافر کی طرح بہہ نکلے اور جب اردگرد دیکھا تو اپنے ساتھ ٹھہرے ہوئے میانی (سرگودھا) کے بھٹہ مالک جواد بھائی کو زار و قطار روتے باآواز بلند دعا کرتے پایا۔ مجھ سمیت کئی پاکستانی الفاظ کی تاثیر اور دل کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ملکی حالات، بھارتی مسلمانوں کی حالت زار اور کشمیریوں کی مدد و نصرت کے لئے مانگی دعاؤں پر آمین کہنے لگے۔ دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا، ایسے لگا جیسے سیپ سے موتی مل گیا، پھر کیا تھا حرم پاک میں، جمعے کی نماز میں، ہر خطبے میں، اس کے بعد کی جانے والی دعاؤں میں ہم اپنی دعائیں ڈھونڈتے، لیکن نااُمید رہتے تو خود سے انفرادی دعائیں ساتھ ملانے لگے۔۔۔
پتا چلا کہ یہاں حکومتی پالیسی کے خلاف خطبہ اور دعا نہیں ہوسکتی۔ دوست ممالک جیسے کہ ہندوستان کو ناراض کرنا شاید شاہی پالیسی نہیں، کاش ایسا نہ ہوتا، کاش اُن سینکڑوں پاکستانیوں کا مان نہ ٹوٹتا جو کئی کئی منٹ امام صاحب کی گزر گاہ کی طرف اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھڑے رہتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مخصوص حلقے اور مسلک کے کہنے پر پاکستان آتے ہیں، انہی کی مساجد میں ٹھہرتے ہیں، لیکن وہ پھر بھی جوق در جوق عقیدت، اخوت، ملی جذبے سے سرشار استقبال کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ وہ سب کے امام ہیں، کاش! امام کعبہ حرم کی دعاؤں میں ہمارا بھرم بھی رکھ لیں، خدا کے گھر میں خوش الحان قرأت کے بعد مظلوم بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے لئے چند جملے دعا کے کہہ دیں۔ شاید یہ الفاظ روح کا مرہم بن جائیں، آخر خدا کے گھر میں خدا سے مانگنے میں مصلحت اور سیاست کیسی؟