مولانا مسعود اظہر کے معاملے پر بھارت کی ایک اور شکست
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی ایک اور کوشش چین نے ناکام بنا دی،سلامتی کونسل میں امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے قرارداد27فروری کو پیش کی گئی تھی،لیکن چین نے آخری لمحات میں اس پر تکنیکی اعتراض اُٹھاتے ہوئے اسے چوتھی مرتبہ موخر کروا دیا۔ چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ چین سیکیورٹی کونسل میں اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتارہے گا، معاملے کا حل صرف بات چیت کے ذریعے ممکن ہے، عالمی برادری مسئلہ کشمیر پر بھی توجہ دے۔
سلامتی کونسل میں یہ قرارداد اگرچہ امریکہ سمیت ویٹو پاور کی حامل تین قوتوں نے پیش کی تھی، لیکن اس کے پس پردہ بھارتی کوششوں کو زیادہ عمل دخل حاصل ہے، جوگزشتہ کئی برسوں سے اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرایا جائے اور پھر اس کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی راہ ہوار کرائی جائے۔ ایف اے ٹی ایف نے پہلے ہی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے اور بھارت اگلے مرحلے میں اِس لسٹ سے نکالنے کی بجائے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرا نے کی سازش کرتا،لیکن اب چوتھی مرتبہ بھی اپنی اس کوشش میں بُری طرح ناکام ہو گیا۔اگرچہ اِس سے پہلے بھی ایسی ہی تین قراردادوں کی منظوری کا راستہ چین نے کامیابی سے روک دیا تھا،اب کی بار بھارت کو امید تھی کہ شاید اُسے اپنی سازش کامیاب کرانے کا موقع مل جائے،لیکن چین نے قرارداد کو ایک بار پھر تکنیکی بنیاد پر نہ صرف موخر کرادیا،بلکہ اس موقع سے فائدہ اُٹھا کرقرارداد کے محرکین سمیت دُنیا کو متوجہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب بھی توجہ دیں اور کشمیر کے دِگر گوں حالات کی طرف بھی نظر ڈالیں، بھارت قرارداد کے موخر ہونے سے سیخ پا ہے اور اس کے میڈیا نے پورے بھارت میں صفِ ماتم بچھا دی ہے اب یہ قرارداد چھ ماہ کے لئے تو موخر ہو گئی،بلکہ اس میں مزید تین ماہ کا وقت بھی لگ سکتا ہے۔ چین بار بار بھارت سے کہہ رہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی جانب توجہ دے اس کا پاکستان کو بھی یہی مشورہ ہے،لیکن بھارت ہر قسم کے مذاکرات کی پیشکش تسلسل سے مسترد کرتا چلا آ رہا ہے، ایسے میں بات چیت سے مسائل حل ہوں تو کیسے؟
سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی جس میں قرارداد تکنیکی طور پر موخر ہوئی ہے اس کا طریق کار یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی فیصلہ تمام ارکان کی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔اگر کوئی ایک رکن بھی کسی قرارداد کی مخالفت کرے تو یہ قرارداد مسترد خیال کی جاتی ہے،اِسی لئے تین ممالک کی یہ قرارداد ختم ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے2001ء میں جیشِ محمد کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا،جس کے بعد بھارت مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کے لئے مسلسل کوشاں ہے اور ان اٹھارہ برسوں میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی، اب کی بار اُس کا خیال تھا کہ وہ ضرور کامیاب ہو جائے گا،لیکن ناکامی نے پہلے کی طرح اس کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے ہیں اور معاملہ ایک بار پھر موخر ہو گیا ہے،اِس دوران بھارت میں انتخابات اگلے ماہ شروع ہونے والے ہیں۔ مودی سرکار کا منصوبہ دراصل یہ تھا کہ اگر اُسے اِس ضمن میں کامیابی حاصل ہوتی تو وہ اسے عام جلسوں میں کیش کراتے، جس طرح انہوں نے ماضی میں سرجیکل سٹرائیکس کے فسانوں اور حال ہی میں بالا کوٹ میں ’’دہشت گردوں کے کیمپ‘‘ پر حملوں کو انتخابی کامیابی کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی،انہوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کا آغاز کیا ہی تھا کہ بھارتی الیکشن کمیشن آڑے آ گیا اور اس نے تمام سیاسی جماعتوں کو فوج سے متعلق امور کو جلسوں میں زیر بحث لانے سے روک دیا ہے، الیکشن کمیشن نے ایک بی جے پی رکن کو بھی طلب کرلیا ہے۔ جس نے فیس بک پر ابھی نندن کی تصویر والا پوسٹر بنایا تھا۔ اِس لئے مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے میں ناکامی سے مودی کی انتخابی مہم کو ایک بڑا جھٹکا لگا ہے۔چین نے بڑی دانش مندی سے آخری دِن اس قرارداد کو ختم کرایا ہے،جس پر مودی کے کیمپ سوگ کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
سفارتی محاذ پر بھارت کو شکست کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں، جن کے ذریعے کالعدم تنظیموں کو غیر مسلح کیا جا رہا ہے اور جو کارکن ان سے لاتعلقی کا اعلان کریں گے اُنہیں قومی دھارے میں لایا جائے گا اور اُنہیں ذاتی کاروبار کے لئے قرض دیا جائے گا اور ان کے لئے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کئے جائیں گے،اس مقصد کے لئے حکومت نے تین نکاتی حکمتِ عملی تیار کی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکمتِ عملی کامیاب ہو گی؟ کیونکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ کالعدم تنظیموں نے2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی مدد کی تھی اور اس نے انہی جماعتوں کی مدد سے انتخاب جیتا،انہوں نے یہ بھی کہا کہ تین وفاقی وزراء کے ان تنظیموں سے روابط ہیں اِس لئے ان وزیروں کو برطرف کیا جائے۔اس کا جواب تو حکومت کے ذمے ہے کہ اِس الزام میں کتنی صداقت ہے،لیکن اِس سے اتنا اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت اگر ان تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے اور ان کے کارکنوں کو اکاموڈیٹ کرنا چاہتی ہے تو اس مقصد کے لئے وسیع تر سیاسی مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ جو حکمتِ عملی بھی بنائی گئی ہے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جا سکے اور آگے چل کر یہ معاملہ کسی بڑے نزاع کا باعث نہ بنے،لیکن اِس سے حکومت کی یہ سوچ بہرحال سامنے آگئی ہے کہ کالعدم مسلح تنظیمیں اب پاکستان میں کام نہیں کر سکیں گی۔
حکومت پہلے ہی بہت سی تنظیموں کے مدارس، مساجد اور دفاتر پر قبضہ کر کے وہاں اپنے ایڈمنسٹریٹر مقرر کر چکی ہے، مساجد میں بھی نئے امام اور خطیب مقرر کر دیئے گئے ہیں،ان جماعتوں سے منسلک فلاحی اداروں کا سامان بھی قبضے میں کر لیا گیا ہے، صرف ایک تنظیم نے اپنی90 سے زائد ایمبولینس گاڑیاں رضاکارانہ طور پر حکومت کے حوالے کی ہیں، تاہم ایک سوال یہ ہے کہ مدارس، سکولوں اور دوسرے تعلیمی اداروں کے وسیع نیٹ ورک پر یہ جماعتیں کروڑوں روپے کے جو اخراجات کر رہی تھیں، کیا حکومت نے اس کا بندوبست کر لیا ہے،کیونکہ سرکاری سکولوں کی حالتِ زار سب کے سامنے ہے، ایسے میں ان نئے اداروں کا انتظام سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا،اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مدارس کتنی بڑی این جی او ہیں،جو کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر وسیع اخراجات محض اہلِ خیر کے تعاون سے کر رہے ہیں، ویسے بہتر ہوتا کہ تعلیمی اداروں کا انتظام مناسب طریقے سے چلانے کے لئے اِن جماعتوں کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاتا، کیونکہ تعلیمی سرگرمی تو کسی دہشت گردی کی ذیل میں نہیں آتی، ورنہ لاکھوں طلباء کا تعلیمی مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا،حکومت کی حکمتِ عملی اسی صورت کامیاب ہو گی جب یہ کام وسیع تر مشاورت سے کیا جائے۔