گورنر اسمبلی کے منظور کر دہ بل کو غور کیلئے واپس بھیج سکتے ہیں
تجزیہ: قدرت اللہ چوھری
پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کا جو بل متفقہ طورپر منظور کیا گیا اسے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وفاقی اور صوبائی وزرائے اطلاعات نے اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق سراہا تھا ان سب کا خیال تھا کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ اس سے ارکان کی کارکردگی میں خوشگوار اضافہ ہوگا لیکن جب ان متحرم شخصیات کی یہ رائے سامنے آئی اس وقت تک وہ اس امر سے بے خبر تھے کہ وزیراعظم عمران خان کو تو پنجاب اسمبلی کا یہ متفقہ فیصلہ پسند نہیں آیا، جونہی انہیں معلوم ہوا کہ وزیراعظم اس اضافے پر خوش نہیں تو انہوں نے فوری طور پر اپنے پہلے بیان سے رجوع کرکے اپنی رائے کو وزیراعظم کی رائے کے ساتھ ہم آہنگ کرلیا، اگرچہ مخالفین اسے بھی یوٹرن کہہ رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے تنخواہیں بڑھانے کے فیصلے کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بہت کم تھیں اگر تنخواہیں نہیں بڑھائیں گے تو مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے الیکشن نہیں لڑیں گے۔ اس طرح ہم انہیں سیاست سے باہر کرنے کا باعث بن جائیں گے۔ بعض دلچسپ وضاحتیں بھی سامنے آرہی ہیں مثال کے طور پر وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ تنخواہوں کا بل تحریک انصاف نے نہیں مسلم لیگ (ن) نے پیش کیا تھا، حالانکہ ایسی وضاحتوں کی چنداں ضرورت نہ تھی بل جس کسی نے بھی پیش کیا وہ اس کا استحقاق رکھتا تھا، یہ کوئی خلاف قانون سرگرمی تو نہیں کہ اس پر خواہ مخواہ شرمسار ہو کر وضاحتیں کی جائیں، بل ضابطے کے مطابق متعلقہ قائمہ کمیٹی میں منظور ہوا پھر ایوان میں پیش کیا گیا۔ یہ بل کسی اختلاف رائے کے بغیر منظور ہوا، کسی رکن نے مخالفت نہیں کی، اب اگر وزیراعظم کو پنجاب اسمبلی کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا تو ان کے پاس اپنے دلائل ہیں۔ البتہ بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف کے ارکان ووٹنگ سے پہلے اس معاملے پر وزیراعظم کو اعتماد میں لے لیتے یا اگر وزیراعظم کو معلوم تھا کہ ایسا کوئی بل آرہا ہے تو وہ ارکان کو پہلے سے روک دیتے کہ وہ اس کے حق میں ووٹ نہ دیں، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور پنجاب کی تحریک انصاف کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا جس کے فقدان کی وجہ سے انہوں نے تنخواہوں میں اضافے کے بل کی حمایت کردی۔ ویسے اس رائے سے تو اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اتنی کم تھیں کہ ان سے کئی گنا زیادہ تنخواہ تو پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ لے رہے ہیں۔ بڑھانے کے بعد بھی ارکان اسمبلی کی تنخواہ سترہ گریڈ کے افسر کے مساوی بنتی ہے۔ اب اس منظور شدہ بل کی مخالفت میں وہ لوگ بھی میدان میں آگئے ہیں جو اگر الیکشن لڑیں تو انہیں سو ووٹ بھی شاید ہی ملیں۔ انہیں یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ الیکشن لڑنا اب کروڑوں روپے کا کھیل بن چکا ہے اگر کسی کو اس بارے میں شک ہے تو وہ عبدالعلیم خان سے جاکر پوچھ لے۔ جنہوں نے جتنی مرتبہ بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا ہار گئے۔ حالانکہ انہوں نے دل کھول کر ووٹروں کی خدمت کی تھی، مہنگے الیکشن کی شہادت محترمہ یاسمین راشد سے بھی لی جاسکتی ہے جنہوں نے تین بار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور شکستوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کی، وہ ان سے اتنی مایوس ہوئیں کہ بالآخر انہیں خواتین کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنا پڑی اور یوں ان کے نام صوبائی وزارت کا قرعہ نکل آیا۔ اگر ایسا بھی نہ ہوتا تو تین بار کی ہار کا صدمہ برداشت کرنا خاصا مشکل کام تھا، تنخواہوں میں اضافے کے حق اور مخالفت میں دلائل دینا اس تجزیئے میں ممکن نہیں لیکن پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور کا ایک دلچسپ بیان آیا ہے کہ وہ وزیراعظم سے مشورہ کے بغیر پنجاب اسمبلی کے منظور کردہ اس بل کی منظوری نہیں دیں گے۔ چودھری صاحب کا غالباً یہ خیال ہے کہ انہیں منظوری نہ دینے کا ’’لامحدود اختیار‘‘ حاصل ہے اور وہ اگر منظوری نہیں دیں گے تو بل اپنی موت آپ مر جائے گا، حالانکہ قانون کی نظر میں ایسا نہیں ہے۔ جناب گورنر کو صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صرف ایک بار اس بل کو دوبارہ غور کے لئے پنجاب اسمبلی کو واپس بھیج سکتے ہیں اور اگر اسمبلی اس بل کو کسی ترمیم کے بغیر دوبارہ اسی طرح منظور کرلے تو انہیں 15دن کے اندراندر اس بل کی منظوری دیناہوگی اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پندرہ دن کے بعد یہ بل منظور تصور ہوگا چاہے وہ اس پر دستخط نہ بھی فرمائیں۔ اس لئے اگر انہیں بل واپس بھیجنے اور اس ضمن میں اپنا اختیار استعمال کرنے کا شوق ہے تو وہ اسے پورا کرسکتے ہیں۔ تاہم اگر ارکان اسمبلی اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں اور بل میں کوئی ردوبدل نہیں کرتے اور بل دوبارہ منظور ہو جاتا ہے۔ تو ان کا اختیار بھی ختم اور بل واپس کرنے کا شوق بھی ختم۔
اتفاق کی بات ہے کہ پنجاب اسمبلی نے یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا ہے اور کسی ایک رکن نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان سب شامل ہیں اب فرض کرتے ہیں کہ وزیراعظم کی ناخوشی کے احترام میں اگر تحریک انصاف کے ارکان دوبارہ بل آنے کی صورت میں اس کی حمایت نہیں بھی کرتے تو بھی اپوزیشن اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر یہ بل دوبارہ منظور کرانے کی پوزیشن میں ہے۔ چونکہ بل مسلم لیگ (ن) نے پیش کیا ہے اس لئے وہ اسے دوبارہ منظور کرانے کی ذمہ داری بھی نبھا سکتی ہے، لیکن اس کی ضرورت اس وقت پیش آئے گی جب گورنر صاحب اس پر دستخط سے انکار کرکے اسے دوبارہ غور کے لئے بھیج دیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور بل پر دستخط کر دیتے ہیں تو یہ قانون بن جائے گا اور ارکان مراعات کے مستحق ہو جائیں گے، بھلے سے یہ بات وزیراعظم کو پسند ہو یا نہ ہو۔
گورنر کے دستخط