اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 144

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 144

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں اس کی بات ٹال گیا اور دل میں کہا کہ اگرچہ مقام نہیں بدلا مگر تاریخ ضرور بدل گئی ہے اور یہ وہی لڑکا ہے جو اب بوڑھا ہوچکا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ میرے شمشان بھومی میں داخل ہونے اور غار سے نکلنے میں ساٹھ سال کا عرصہ گزرگیا تھا۔ میں نے سرائے سے ایک گھوڑا لیا اور اس پر سوار ہوکر سیدھا دریا کے پرانے گھاٹ پہنچا اور اوپر والی چٹان کی گپھاہ میں آگیا۔ یہاں سادھو مہاراج کا کرمنڈل اور ترشول، ویسے ہی گپھاہ کی باہر چٹان کے چبوترے پر پڑا تھا لیکن سادھو غائب تھا۔ اتنے میں ایک آدمی تھال میں پھل مٹھائیاں اور ہار لے کر آیا اور گپھاہ کے باہر چبوترے پر رکھ کر ادب سے وہیں بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے سادھو مہاراج کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ گرودیو ابھی جنگل سے واپس آجائیں گے۔ میں نے دیکھا، تھالی میں چاندی کے چند سکے بھی پڑے تھے۔ میں نے ان میں سے ایک سکہ اٹھالیا تو اس شخص نے لجاجت سے کہا
’’یہ گرودیو مہاراج کے لیے ہیں۔‘‘

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 143 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میں یہ لوں گا نہیں۔ فکر نہ کرو۔‘‘ میں نے کہا سکے پر سکندر لودھی کا نام تھا۔ گویا فیروز تغلق کا دور گزرچکا تھا اور اب میں بہلول لودھی کے بعد سکندر لودھی کے دور میں نمودار ہوا تھا۔ اب میرا وہاں ٹھہرنا بے کار تھا۔ میں پلٹا ہی تھا کہ ایک نوجوان سادھو، ہاتھ میں تلسی کے پتوں والی ایک شاخ لئے نمودار ہوا۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر اسے نمسکار کیا اور اس سے پہلے والے سادھو مہاراج کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بولا ’’بچہ۔۔۔ وہ تو کب کے پرلوک سدھار چکے ہیں۔‘‘
میں خاموشی سے پہاڑی کے نیچے بہتے دریا کو تکنے لگا۔ زندگی کا دریا بہہ رہا تھا، لوگوں کی شکلیں ابھر ابھر کر غائب ہورہی تھیں۔میں واپس سرائے میں آگیا۔ میرا دل اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے بے تاب ہوگیا۔ میں نے جنگل سے کچھ جڑیبوٹیاں توڑیں۔ یہ بڑی قیمتی جڑی بوٹیاں تھیں اور ایسی جگہوں پر پتھروں کی اوٹ میں اگتی تھیں جن کا عام لوگوں کو علم نہیں ہوتا۔ برہان پور آکرمیں نے ان جڑی بوٹیوں کو فروخت کیا اور دہلی جانے والے ایک قافلے میں شامل ہوکر لودھی بادشاہوں کے پایہ تخت کی طرف روانہ ہوگیا۔ 
ساٹھ برس میں دہلی کی شاہی عمارتوں اور محلات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ البتہ لوگ بدل گئے تھے جن کو میں بچے چھوڑ کر گیا تھا، وہ بوڑھے ہوچکے تھے، جنہیں بڑھاپے کے عالم میں چھوڑ گیا تھا، وہ مرکھپ چکے تھے۔ میں سیدھا شاہی مہمان خانوں کے قریب اپنی سرخ حویلی میں پہنچ گیا۔ وہاں باہر تخت پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا، پتھر سے آہستہ آہستہ زرد چنوں کو پیس رہا تھا۔ ایک عجیب سی پدرانہ شفقت نے میرے اندر جوش مارا۔ میں سلام کرکے اس کی طرف بڑھا تو بوڑھے نے پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر سکتے کے عالم میں مجھے دیکھتا رہ گیا ’’بابا جان! اس کے حلق سے کپکپاتی ہوئی آواز نکلی اور میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ اس سے لپٹ گیا۔ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ جو میرے جدا ہونے کے وقت پندرہ بیس سال کا ہوگا۔ میں نے اس سے اس کے بھائی اور ماں کے بارے میں دریافت کیا۔ اس کا جواب میری توقع کے عین مطابق تھا۔ وہ سب مرکھپ چکے تھے اور میرے بوڑھے بیٹے کی گزر اوقات، حویلی کے کرائے پر تھی۔ حویلی میں ایک سوداگر رہتا تھا اور میرا بوڑھا بیٹا، حویلی سے متصل ایک کوٹھری میں رہائش پذیر تھا۔
میں نے حویلی میں کسی کو نہیں بتایا کہ میں اس بوڑھے کا جوان باپ ہوں اور نہ ہی میرے بیٹے نے کسی سے کچھ کہا۔ میں اپنے بوڑھے بیٹے کے پاس رہ گیا اور اس کی خدمت کرنے لگا۔ کچھ دنوں بعد میرے بوڑھے بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ میں نے اسے اس کے بھائی اور ماں کے پہلو میں دفن کردیا اور اپنی حویلی کی کوٹھری میں رہنے لگا۔ حویلی پر میرے بیٹے کے کرایہ دار سوداگر نے قبضہ کررکھا تھا۔ وہ کرایہ بھی ادا نہیں کرتا تھا۔ مجھے حویلی، مکان اور جائیداد کا کوئی لالچ نہیں تھا۔ میں نے بڑے محلوں کو کھنڈروں میں تبدیل ہوتے اور ان میں حشرات الارض کو رینگتے دیکھا تھا۔ میں کچھ عرصہ دہلی میں گزار کر اندلس کی طرف روانہ ہوجانا چاہتا تھا۔
۔۔۔ پھر سکندر لودھی کا انتقال ہوگیا اور ابراہیم لودھی تخت شاہی پر متمکن ہوا۔ اس وقت تک لودھی کے افغانی امراء اقتدار حاصل کرچکے تھے اور ان کی قوت بڑھ گئی تھ۔ وہ ابراہیم لودھی سے حسد کرتے تھے۔ ان افغانوں کے انحراف اور غرور کی وجہ سے سلطنت کے کاموں میں بدانتظامی کا دور دورہ تھا۔
دوسری طرف ظہیر الدین بابر، درہ خیبر سے گزر کر ہندوستان کے شمالی علاقوں کو تاراج کرتا، دریائے سندھ کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ وہاں اس نے نہلاب نام کا ایک قلعہ فتح کیا پھر سندھ پار کرکے، پنجاب کے ایک پرگنے کو فتح کرنے کے بعد، شہنشاہ ہند ابراہیم لودھی کو پیغام بھیجا کہ چونکہ وہ تمام ممالک جن پر لودھی شہنشاہ نے قبضہ کررکھا ہے، زیادہ تر آل تیمور کے علاقے رہ چکے ہیں اور صاحبقران گورگانی یا اس کی اولاد کا ان پر قبضہ رہا ہے، اس لئے مناسب ہوگا کہ پرگنہ پرہ مع گرد ونواح کے قصبوں کے، بابر شاہ کے حوالے کردیا جائے چونکہ ابراہیم لودھی، بابر شاہ کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف تھا اور خود اس کی اپنی صفوں میں استحکام نہیں تھا۔ اس لئے اس نے پرگنہ پردہ اور اس کے گرد و نواح کے علاقے بابر شاہ کے حوالے کردئیے۔بابر شاہ نے سندھ اور پرہ کے درمیان کے علاقوں کی فرماں روائی محمد علی فنگ کے سپرد کی اور خود کابل واپس چلا گیا۔
پایہ تخت دہلی کی سیاسی اور اقتصادی حالت کسی طور پر بھی اچھی نہیں تھی۔ لیکن خدا جانے کیا بات تھی کہ میرا اس شہر سے جانے کو اب دل نہیں چاہتا تھا۔ شاید اس لئے کہ اس شہر بے مثال کی خاک میں میری بیوی اور بچے دفن تھے۔ مجھے اپنی پہلی مصری بیوی سمارا سے بھی بہت محبت تھی اور آج سے پانچ ہزار سال پہلے میں نے سرزمین مصر میں بھی اپنے بیوی بچوں کو دفن کیا تھا مگر اس عہد کا تعلق قدیم مصر کے ایک سفاک فرعون سے تھا جو میری جان کا دشمن تھا اور وہاں سے فرار ہونا میری قسمت میں لکھا جاچکا تھا۔ آج سے سات آٹھ سو برس پرانا دہلی مجھے اپنی تمام اندرونی شورشوں اور نفسانفسی کے عالم کے ساتھ پسند تھا۔
میں اپنی حویلی ہی کی ایک کوٹھری میں گمنامی کی زندگی بسرکررہا تھا۔ میں نے دنیا دکھاوے کے لئے جڑی بوٹیوں کا کاروبار شروع کررکھا تھا۔ میں تیسرے چوتھے روز جنگل میں چلا جاتا اور وہاں سے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرکے شہر کے حبیبوں کے ہاتھ فروخت کردیتا تھا۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب ہندوستان میں مغل امیر، ظہیر الدین بابر کے ساتھ مل چکے تھے۔ لاہور پر بابر کا قبضہ تھا اور بابر خود کابل میں بیٹھا، عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ ہندوستان پر چار حملے کرچکا تھا۔
تسخیر ہند کا ارادہ لے کر وہ ایک بار پھر کابل سے سندھ کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا بیٹا ہمایوں بھی ایک لشکر جرار لے کر بدخشاں پہنچ گیا۔ یکم ربیع الاول کو بابر نے دریائے سندھ عبور کیا۔ وہ سیالکوٹ پہنچا تو سلطان علاؤالدین، بابر کی خدمت میں نذرانے لے کر حاضر ہوا۔ کچھ افغان امیر بھی چالیس ہزار کی جمعیت لے کر بابر کے ساتھ آن ملے، شاہ آباد کے قریب ابراہیم لودھی کے ایک لشکر نے مزاحمت کی۔ ایک خون ریز جنگ کے بعد ابراہیم لودھی کی فوج کو شکست ہوئی۔ اب میدان جنگ پانی پت کا میدان تھا۔ ابرہیم لودھی کی فوج کی تعداد ایک لاکھ سپاہیوں تک پہنچ گئی تھی اور اس کے ساتھ ایک ہزار جنگی ہاتھی بھی تھے۔ اس کے برعکس بابر کی فوج کی تعداد زیادہ تھی مگر اس کے پاس سات سو چھوٹی توپیں تھیں۔
جنگ شروع ہوئی۔ لودھی کی فوج نے پہلے تو بہت تیزی اور سرعت دکھائی لیکن بابر کی توپوں نے ان کے منہ پھیرنے شروع کردئیے۔ فوج میں بے قاعدگی پیداہوگئی۔ لودھی اپنی چھ ہزارمحافظ فوج کے ساتھ اس جنگ میں ختم ہوگیا اور بابر کو فتح نصیب ہوئی۔ بابر کی فوج جب دہلی میں داخل ہوئی تو شہر میں موت اور دہشت کا سماں تھا۔ ہندوستانی باشندے بابر کی فوج سے ڈرے ہوئے تھے مگر بابر نے تخت پر بیٹھتے ہی خزانے کا منہ کھول دیا اور اس قدر خیرات کی کہ لوگوں کے دل جیت لئے اس کے ساتھ ہی بابر اپنے دشمنوں کے معاملے پر بڑا سنگ دل تھا۔ دہلی میں اس نے ابراہیم لودھی کے حامی امیروں اور وزیروں کی کھالیں کھنچوا دی تھیں۔
میری حویلی کا ناجائز مالک سوداگر حشمت خان تھا۔ اس کی ایک خوبصورت کنیز فروشانہ نام کی تھی۔ یہ کنیز کبھی کبھی میرے لئے کوئی پکوان پکالاتی تھی۔ یہ کنیز ایرانی النسل تھی۔ شہزادہ ہمایوں کی دو کنیزیں بھی ایران سے تعلق رکھتی تھیں اور شہزادے کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ رانا سانگا کی شکست اور اس کے قتل کا داغ سینے پر لئے ایک راجپوت سردار، بابر سے انتقام لینے کے لئے ایک جوگی کے روپ میں دہلی پہنچا۔ اس نے بابر کے بیٹے شہزادہ ہمایوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ہمایوں کے محل کے ایک کالستھ ہندو چوبدار کے ذریعے، ہمایوں کی ایرانی کنیزوں سے رابطہ پیدا کرلیا۔ اس نے دونوں کنیزوں کے زائچے بنا کر انہیں بتایا کہ وہ رانیاں بن کر ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہیں۔ دونوں کنیزیں اس چرب زبان اور عیار راجپوت کی باتوں میں آگئیں۔ اسے معلوم تھا کہ ایک کنیز ہمایوں شہزادے کا کھانا اپنی نگرانی میں تیار کرواتی ہے۔ جوگی نے اسے الگ لے جاکر بتایاکہ اس وقت سارے بابرکت ستارے اس کے طالع میں جمع ہیں اور اگر وہ کسی طرح شہزادہ ہمایوں کو ہلاک کر ڈالے تو بادشاہ اپنے بیٹے کی موت کے صدمے سے خود جاں بحق ہوجائے گا۔ شمال سے تاتاری باغیوں کا گروہ، ملک پر حملہ کرنے والا ہے جس کا سردار قتلغ خان، اس کا دوست ہے اور اس کا ستارہ اس وقت عروج پر ہے۔ وہ اس کی شادی قتلغ خان سے کروادے گا۔ اس طرح وہ ملک بن کر ہند پر حکومت کرے گی۔ کنیز، اس عیار کی باتوں میں آگئی۔ راجپوت جوگی نے اسے ایک خاص قسم کا بے رنگ اور بے ذائقہ زہر دیا کہ وہ اس شہزادے کے کھانے میں ملا دے۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 145 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں