اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 107

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 107
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 107

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک بار حضرت ابراہیم بن اشحبؒ نے حضرت فضیل بن عیاضؒ سے پوچھا کہ ’’صبر، زہد، ورع اور خاکساری کا مطلب کیاہے؟‘‘
آپ نے فرمایا ’’صبر کا مطلب تو یہ ہے کہ جب تم پر مصیبتیں آئیں، تو شکوہ شکایت نہ کرو۔ زہد کے معنی یہ ہیں کہ تم قناعت اختیار کرو۔ جو کچھ تمہیں میسر ہے۔ اسی کو بہت سمجھو یہی سب سے بڑی مالداری ہے۔ ورع کے معنی یہ ہیں کہ جن باتوں کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، تم ان کے قریب بھی نہ پھٹکو اور خاکساری کا مطلب یہ ہے کہ تم حق کے سامنے جھک جاؤ اور جس کسی سے بھی حق ملے اسے کھلے دل سے قبول کرو۔ چاہے کسی ایسے شخص سے ملے جو تمہاری نظر میں سب سے زیادہ کم علم اور نادان ہو۔
***
حضرت میمون بن مہرانؒ فرماتے ہیں کہ حجت نہ کرو، نہ کسی جاہل سے اور نہ کسی عالم سے۔ عالم سے حجت کرو گے تو اس کے علم سے محروم رہ جاؤ گے۔ اور اگرجاہل سے حجت کرو گے تو وہ تمہارے سینے پر چڑھ جائے گا۔‘‘
***

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 106 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت حمید الدین ناگوریؒ جب اپنے وطن سے دہلی کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں انہوں نے ایک چڑیا دیکھی جو اس وقت میٹھے سروں میں حمد باری کررہی تھی۔ آپ سن کر لطف اندوز ہوئے۔
آپ اس گانے والے پرندے کے نغمے سے متاثر ہوئے اور آپ پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ تھوڑی دیر تک یہی حالت رہی۔ جب ذر اہوش آیا تو حضرت خضرؑ تشریف لائے اور فرمایا ’’حمید الدین! اب سے پیشتر جو اولیاء اللہؒ گزرے ہیں انہوں نے بھی گانا سنا ہے۔ اور سماع سے وجد میں آئے ہیں لیکن حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ نے اس کو بعض وجوہات سے ترک کردیا تھا۔‘‘
قاضی حمید الدین نے عرض کیا ’’اے خواجہ خضرؑ ! مَیں تو سماع پر شیفتہ ہوگیا ہوں۔ اگر مجھے کہیں قوال مل جائیں تو میں تو مجلس سماع ضرور منعقد کروں گا۔‘‘
خواجہ خضرؑ نے فرمایا ’’جب سے حضرت جنید بغدادیؒ نے اس کو ترک کیا ہے تب سے قوالی سننے والوں کو سولی پر چڑھانے کا قانون بن گیا ہے اور لوگ محفل سماع منعقد کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘‘
حضرت خضرؑ کی باتیں سن کر قاضی حمید الدین ناگوریؒ بازار گئے۔ وہاں سے سات غلام خریدے اور ان سب کو گانے کی تعلیم دلوائی۔ کچھ عرصہ تک وہ لوگ اس فن کو سیکھتے ہے۔ جب اچھی طرح مہارت حاصل کرلی تو آپ نے سماع کی محفلیں ترتیب دینا شروع کردیں۔ بہت سے ایسے بزرگ اولیاءؒ جن کو سماع سے شوق تھا۔ ان میں شریک ہوتے۔ اُن پر حال اور وجد کی کیفیت طاری ہوتی۔
رفتہ رفتہ اس کی خبر پورے شہر میں پھیل گئی اور اس زمانے کے بڑے بڑے علماء و فقہاء مثلاً قاضی عماد، قاضی منہاج، قاضی سعید الدین، سید مبارک اور امجد وغیرہ آپ کے سخت مخالف ہوگئے اور ہر وقت آپ پر اعتراض کرنے لگے کہ بزرگوں کی روایت کے خلاف گانا سنتا ہے۔ قاضی صاحب نے جب یہ سنا تو کہا ’’میں تو اب خاندان چشتیہ کے زیر سایہ ہوں اور ان پیران چشتیہ کے طفیل مجھے تمام دینی برکتیں ملی ہیں۔ لہٰذا ان کا ہر فعل میرے لیے بہتر ہے۔ شیخ جنیدؒ بغدادی نے اگر محفل سماع کی مخالفت کی ہے تو مجھ پر اس کا کو ئی اثر نہیں ہوسکتا۔ مَیں تو سماع کو ترک نہیں کرسکتا۔
کچھ عرصہ بعد آپ بغداد تشریف لے گئے اور اپنے ایک بزرگ مرید کے گھر ٹھہرے۔ مرید نے اپنے گھر کے ایک کمرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کمرے میں ایک بانسری بجانے والا چھپا ہوا ہے۔ خلیفہ بغداد کے خوف سے اس کو یہاں بند کرلیا ہے کیونکہ خلیفہ کا یہ حکم ہے کہ اگر کسی کے گھر محفل سماع ہو تو اس کو فوراً گرفتار کرکے سولی پر چڑھا دیا جائے۔ اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں خلیفہ کو خبر نہ ہوجائے۔‘‘
قاضی صاحب نے فرمایا ’’میں تو سماع کا عاشق ہوں، تم بغیر کسی ڈر اور خوف کے اس کو بلاؤ تاکہ میں اس کی بانسری سنوں۔‘‘
مرید نے یہ سن کر کمرہ کھولا اور نَے نواز کو نکال لائے۔ قاضی صاحب نے حکم دیا ’’تم اپنا نغمہ سناؤ۔‘‘
اس نے اتنی اچھی بانسری بجائی کی قاضی صاحب کو بہت ہی لطف آیا اور ان پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ پھر یہ خبر شہر کے قاضی تک بھی پہنچ گئی۔ قاضی نے ایک آدمی کے ذریعے آپ کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
جب آپ کو قاضی کا حکم ملا تو آپ نے فرمایا ’’ہر شخص کے لیے سماع حرام نہیں ہے۔ جو لوگ سننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘
پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد آپ نے فرمایا ’’تم جاؤ اور قاضی صاحب سے کہو ’’کہ وہ تمام علماء اور مفتی جمع کریں میں بھی حاضر ہوجاؤں گا۔ اگر میں نے سماع کو جائز ثابت کردیا تو خیر ورنہ جہاں اتنے بزرگوں کو انہوں نے سولی دلوائی ہے مجھے بھی دلوادیں۔
دوسرے دن آپ نے اپنے مرید کے ہاتھوں تمام ساز منگوا کر انہیں کپڑوں سے ڈھانپ دیا پھر سب لوگوں کو اپنے ہاں جمع ہونے کو کہا۔ قاضی بھی آگیا۔
قاضی نے پوچھا ’’حمید الدین کہاں ہیں جنہوں نے قوالی کو جائز کہہ کر شہرمیں ایک فتنہ پھیلا رکھا ہے۔ قاضی حمید الدین سامنے موجود تھے، بولے ’’میں ہی حمید الدین ہوں اور بلا شبہ سماع کو اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں کیونکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا ہے اگر کسی پ یا سے کوپانی نہ ملے اور پیاس سے اس کی جان جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے شراب پینا حلال ہے۔ امام شافعیؒ نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنا غم غلط کرنے کے لیے گانے سنے تو جائز ہے۔ مَیں مریض عشق ہوں غم محبت میرے دل پر چھایا ہوا ہے اور شراب وصال کی تشنگی مجھے ہلاک کیے دے رہی ہے۔ ایسے میں کون ایسا عالم ہے جو میرے لیے سماع کو ناجائز قرار دے گا۔
اس کے بعد آپ نے اور بہت سی شرعی دلیلیں پیش کیں۔ جن کو سن کر سب قائل ہوگئے۔ مگر بولے ’’یہ تو سچ ہے مگر آپ خدا کے ولی ہیں اور آپ کے کشف و کرامات مشہور ہیں۔ آپ اس وقت کوئی ایسی کرامات دکھائیے کہ ہم سب سماع کے قائل ہوجائیں اور ہماری ہر طرح تسکین ہوجائے۔‘‘
یہ سن کر آپ نے سازوں کی طرف اشارہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ تمام سازوں سے خود بخود نغمے نکلنے لگے اور قاضی حمید الدین ناگوری پر وجد طاری ہوگیا۔ اسی حالت میں آپ نے فرمایا 
’’نادانو! دیکھتے کیا ہو، تم بھی شریک ہوجاؤ۔‘‘
یہ سنتے ہی ان سب پر وجد طاری ہوگیا اور سب جھومنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد جب ہوش میں آئے تو قاضی حمید الدین نے علماء سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ’’اب تو آپ لوگوں کو اطمینان ہوا چشتیوں کی کرامات دیکھی یا ابھی کچھ اور چاہتے ہیں۔‘‘
علماء بہت شرمندہ ہوئے اور آپ سے معافی چاہی۔ قاضی حمید الدین ناگوریؒ کچھ دن وہاں ٹھہر کر دہلی واپس تشریف لے گئے۔(جاری ہے)

اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 108 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں