پانی کا ضیاع کیسے روکا جائے؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں پانی کی قلت کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، کیونکہ زراعت اور عام استعمال کے لئے طلب بڑھ رہی ہے، جبکہ پانی کا حصول اتنا ہی مشکل ہوتاجا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پانی کا حصول کیوں مشکل تر ہو رہا ہے؟ اس کا جواب واضح، شفاف، دو ٹوک اور بالکل سامنے ہے……وہ یہ کہ پانی کے منبعوں پر بھارت قابض ہے، جبکہ ہم نے حاصل مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ چالیس پینتالیس برسوں میں کوئی نیا آبی ذخیرہ بنانے کی مناسب سعی نہیں کی۔ اب صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ جب برسات کا موسم آتا ہے تو ہمارے دو بڑے ڈیم تو کسی حد تک بھر جاتے ہیں، لیکن یہ پانی اتنا نہیں ہوتا کہ ہماری سردیوں کی ضروریات پوری کر سکے۔ جب پانی کے سرچشموں، یعنی گلیشئرز کا پگھلنا بند ہو جاتا ہے تو پانیکی قلت زیادہ ہو جاتی ہے، ویسے بھی گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشئرز کا حجم کم ہوتا جا رہا ہے۔ پھر ہمارے اس پورے خطے میں زیر زمین پانی کی ایک خاصی دبیز تہہ موجود تھی۔ زراعت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے دوسرے مقاصد کے لئے پانی کے استعمال میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے یہ تہہ بھی سکڑتی جا رہی ہے۔ اس تہہ کے سکڑنے کی دوسری وجہ سطح زمین پر پانی کی کمی ہے، کیونکہ سطح زمین کا پانی ہی نفوذ کر کے زیرِ زمین جاتا ہے، جس سے پانی نکالے جانے کے باوجود سطح زمین کے نیچے کی یہ تہہ برقرار رہتی تھی۔
پانی کی قلت کا مسئلہ نیا نہیں، نہ ہی یہ دو دن، دو ہفتوں، چند مہینوں یا دوچار سال میں پیدا ہوا ہے۔ مختلف سطح پر عرصے سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ آبادی بڑھ رہی اور اس کی ضروریات کے لیے پانی کم پڑتا جا رہا ہے۔ ملک کے کرتا ھرتا بھی یہ سب دیکھ رہے تھے کہ بھارت آبی جارحیت پر آمادہ ہے اور وہ پانی کے ان منبعوں پر مختلف صورتوں میں قبضہ کئے جا رہا ہے، لیکن کسی نے نہ تو کوئی بڑا آبی ذخیرہ بنانے کی ضرورت پوری کرنے کے بارے میں سوچا اور نہ بھارت کے ہاتھ روکنے کی ہی کوئی ٹھوس کوشش کی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ملک بہت سے دوسرے خطرات کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کے اندیشوں میں بھی گھرا نظر آتا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ اگر اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو گزرتے وقت کے ساتھ یہ مسئلہ سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔
اس مسئلے کا فوری حل یقینا یہ ہے کہ جو پانی دستیاب ہے، اس کا سہولت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پانی کی بچت کی جائے۔ اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہوتا نظر آیا ہے تو شہری انتظامیہ بھی حرکت میں آئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ گاڑیاں دھونے کے لئے پائپ سے پانی کا استعمال نہ کیا جائے،بلکہ بالٹی میں پانی لے کر گاڑیاں دھوئی جائیں۔ پائپ سے گاڑی دھونے والوں کا چالان کر دیا جاتا ہے…… بالکل بجا…… ہمارے ملک میں پانی کی کمی کا بحران جس شدت کے ساتھ بڑھ رہا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ پانی کی بچت کے لئے اقدامات کئے جائیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سڑکوں پر جتنی مٹی اور کیچڑ ہے، اس کو صاف کرتے کرتے دس بالٹیاں پانی خرچ ہو جاتا ہے، یعنی معاملہ وہی پائپ کے ذریعے پانی کے استعمال تک ہی پہنچ جاتا ہے۔ اب دیکھنے والے کو تو لگتا ہے کہ بندہ بالٹی میں پانی لے کر گاڑی دھو رہا ہے، لیکن دراصل پانی پائپ کے ذریعے گاڑی دھونے جتنا ہی استعمال ہو رہا ہوتا ہے۔
پانی کی جس بچت کے لئے یہ پابندی لگائی گئی ہے، وہ بچت ہو نہیں پاتی۔ اس حوالے سے میری تجویز یہ ہے کہ آج کل مارکیٹ میں ایسے پمپ دستیاب ہیں،جو پریشر سے گاڑی دھوتے ہیں اور ایک بالٹی سے بھی کم پانی میں پوری گاڑی دھل جاتی ہے۔ جن لوگوں نے گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں،وہ اگر ان پمپس کا استعمال کریں تو پانی ضائع ہونے سے بچ جائے گا اور ان کی گاڑیاں بھی صاف حالت میں رہ سکیں گی۔ پانی کی بچت کا یہ طریقہ تو ٹھیک ہے کہ اس کا استعمال سہولت کے ساتھ کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچت کے دوسرے طریقے اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جیسے پینے اور نہانے وغیرہ کے لئے تو یہی دستیاب پانی استعمال کیا جائے، لیکن کموڈ میں استعمال کے لئے……نہانے، وضو کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کے لئے استعمال کیا گیا پانی دوبارہ استعمال میں لایا جائے۔ یہ واقعی سوچنے کا مقام ہے کہ ہم فضلہ بہانے کے لئے بھی ویسا ہی صاف پانی استعمال کرتے ہیں، جو پینے اور نہانے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ پانی بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بارش کے پانی کو کسی طرح محفوظ کر لیا جائے اور یہ پانی صفائی ستھرائی کے لئے استعمال میں لایا جائے۔پینے اور وضو کے لئے دستیاب پانی ہی استعمال کیا جاتا رہے۔ یہ سارے طریقے اور اقدامات تو مان لیا کہ پانی کی بچت کے حوالے سے مفید ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پانی کے وسائل اور ذرائع میں اضافے کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہئے۔ ہر سال ہزاروں،بلکہ لاکھوں ایکڑ فٹ پانی دریاؤں کے راستے سمندر میں بہا دیا جاتا ہے۔ اس پانی کو بچا کر استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور اس پانی کو استعمال میں لانے کا سب سے بہتر طریقہ ایک بڑے ڈیم کی تعمیر ہے۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ قومی اہمیت کے حامل کالا باغ ڈیم کو علاقائی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ خریف اور ربیع کی فصلوں کی آب پاشی کے لئے مناسب مقدار میں پانی ہی دستیاب نہیں ہوتا۔ اب بھی اگر ہم نہ جاگے تو نہ صرف ہمیں، بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔