آزادی کے بعد ہم معاشی، تہذیبی، فکری غلامی کاشکار،علامہ قمرالزمان خان

آزادی کے بعد ہم معاشی، تہذیبی، فکری غلامی کاشکار،علامہ قمرالزمان خان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 
ملتان (سپیشل رپورٹر)سیکرٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن برطانیہ علامہ محمد قمر الزمان خان اعظمی نے کہا کہ اللّٰہ سے رجوع کرنے والا عروج پاتا ہے۔ جسم اللّٰہ کا ہے تو اس پر قانون بھی اللّٰہ کا ہی نافذ ہوگا۔امت مسلمہ پر مظالم اور ہماری ذمہ داریاں ایک وسیع ٹاپک ہے،(بقیہ نمبر47صفحہ7پر)

جب قوم سو رہی ہو تو جگانا چاہیے۔سونے والے کو جگایا جا سکتا ہے لیکن مرنے والے کو نہیں جگایا جا سکتا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام " امت مسلمہ پر مظالم اور ہماری ذمہ داریاں " کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آپؐکے دور میں روم اور ایران سپر پاور تھیں۔ صدیوں سے جنگیں ہو رہی تھیں، عربیوں کا خون بہہ رہا تھا۔کوئی بھی ان دو قوتوں کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ایسے میں آپ ؐکا ظہور ہوا۔ آپؐنے پوری امت کے لئے نبی بن کر آئے۔انہوں نے ایک صدی کے عرصے میں ہی دنیا کے تین بڑے براعظموں پر روشنی پھیلا دی۔ آج امت مسلمہ پر مظالم ایک دم سے سامنے نہیں آئی۔ہم دنیا میں 25 فیصد ہیں،اللّٰہ پاک نے 26 فیصد وسائل دیے جو ہم نے غیروں کے حوالے کردیے۔ اگر اللّٰہ کی بتائی باتوں پر عمل کرتے، کتابوں سے وابستگی رکھتے تو آج خود فائدہ اٹھا رہے ہوتے۔کاش ہمیں اپنی سرحدوں کی عظمتوں کا احساس ہوتا تو آج ہم قرآن کو نہ چھوڑتے۔ایک طاقتور پاکستان پوری دنیا کے مسلمانوں کا رہنما ہو سکتا ہے، لیکن حالات ہمارے سامنے ہیں۔کسی ملک، قوم، براعظم میں اختلاف پیدا ہوجائے تو موت ہے۔اگر اتحاد پیدا ہوجائے تو زندگی بن جاتی ہے۔رجوع کروگے تو عروج آئے گا۔جس قوم میں انکا نظام کلچر ختم ہو جائے دوبارہ نہیں بنتا۔اسلام واحد مذہب ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکا۔قرآن کریم اور سنت رسولؐپر عمل کرنا ہی بقاء ہے۔20 ویں صدی میں مسلمان محکوم تھے، ہر چیز پر قبضہ تھا۔یورپ جب جنگ عظیم کا شکار ہوا تو محکومیاں ٹوٹ گئیں۔آزادی کے بعد بھی ہم ذہنی، معاشی، تہذیبی، فکری غلامی کا شکار ہیں۔قوت و فکر پر زوال آنے سے کسی قوم پر زوال آتا ہے۔ ہمیں اس زوال سے نکلنے کے لئے قوت و فکر پر قابو پانا ہوگا۔ مسلمانوں کی 14 سو سالہ تاریخ میں قرآن کا ساتھ نہیں چھوٹا۔مسلمان عرب کے صحرا سے نکل کر با رونق روم پہنچے، آتش کدہ ایران پہنچے، گنگا کے ہندوستان پہنچے لیکن اپنے کردار سے وہاں اسلام پھیلا دیا۔قانون کی گرہ کھولنے والے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔وکلاء اس قوم کا سرمایہ ہیں، خلاصہ ہیں، آپ کو اسلامی قوم کی نمائندگی کرنا ہوگی۔ہم پسماندہ مولویوں پر کب تک امید لگائے رکھیں گے۔ مسلمانوں کے پاس جب وسائل نہیں تھے آپؐنے انکو سرخرو فرمایا۔دنیا کی جنگ طاقت اور وسائل سے نہیں بلکہ حق اور صداقت سے جیتی جا سکتی ہے۔پاکستان کے وجود سے ابتک دنیا نے ہر طرح سے کوشش کی ہے۔یہ جسم پیدا کرنے والے کا ہے۔میں اس حق میں ہوں کہ ہماری بیٹیاں ڈاکٹر، ٹیچر اور وکیل بنیں۔ میں اس حق میں نہیں ہوں ہماری بیٹیاں جہازوں اور ہوٹلوں میں ماتحت کام کریں۔ہمیں اپنے دین سے آشنا ہونا ہوگا۔ مسلمان دنیا میں اگر تاجر، مزدور، قیدی، غلام بن کر گیا تو وہاں بھی اسلام پھیلا کر آیا۔ہمارے غلبے کی تمام تاریخ قرآن و دین سے مضبوط رشتے سے وابسطہ ہے۔جو ہو رہا ہے اس پر مایوس نا ہوں بلکہ قدرت کی ان ضربوں سے جاگنے کی کوشش کریں۔ قرآن عظیم نے انسانی فکروں کے تمام گوشوں کے متعلق رہنمائی فرمائی ہے۔جب آپؐپیدا ہوئے 17 مسلمان پڑھے لکھے تھے جب پردہ فرمایا ایک لاکھ مسلمانوں کے ہاتھوں میں قلم تھا۔جہاں اسلام ہوگا، وہاں جہالت نہیں ہوگی جہاں جہالت ہوگی وہاں اسلام نہیں ہوگا۔قرآن میں بار بار غور و فکر، مشاہدہ کی بات ہوئی ہے۔دنیا میں زبانیں بدلتی رہتی ہیں، ہر زبان میں لغت مطلب بدل گئے لیکن قرآن 14 سو سال بعد بھی ویسا ہی ہے۔ہر زبان، ہر تحریر ماضی کا حصہ بنی ہے لیکن قرآن حکیم ہر دور کے لیے رہنمائی بنا رہا، آنے والے زمانے کا بتا دیا۔ دنیا کے قوانین بدلتے رہتے ہیں لیکن قرآن کریم میں تمام قوانین 14 سو سال بعد بھی وقت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ قرآن میں 14 سو سال پہلے خواتین کو حقوق دیے گئے، دنیا آج وہی قوانین دینے کی بات کر رہی ہے، قرآن حکیم نے ہر طبقہ، ہر ذات، ہر روح و جنس کے حقوق کے متعلق پوری وضاحت پیش کردی ہے، زمین سجدہ گاہ بنائی گئی ہے مسلمان یہاں گناہ کرنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ کیا ہماری قوم 95 فیصد سجدہ گزار ہیں مسلمان بن جائیے کامیابی ضرور ملے گی۔علامہ سید حامد سعید کاظمی نے کہا کہ آپؐنے فرمایا مسلمان ایک جسم کی مانند ہے۔ جب مسلمان کوئی بڑا کام کرنا چاہیں تو ایک جسم ہونا پڑیگا۔یہ کیسے ممکن ہے کوئی پاکستان کا دوست ہو لیکن عراق کا دشمن ہو،کیسے ممکن ہے کوئی افغانستان کا دوست ہو لیکن ایران کا دشمن ہو،کشمیر، انڈیا، فلسطین کی بات نہیں بلکہ آج بات امت مسلمہ کی ہے، ہم لوگ بے عملی کی راہ پر گامزن ہیں، خواب خرگوش میں ہیں، اللّٰہ تعالیٰ امت مسلمہ کا ہمیں درد محسوس کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔صدر ڈسٹرکٹ بار عمران رشید سلہری نے کہا میں مہمانان گرامی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے یہاں آنے کا شرف بخشا، اگر ہم اس کتاب کو پڑھ کر تراجم کو سمجھیں گے تو دنیا پر دوبارہ اسلام کا غلبہ ہوگا، حضرت عمر فاروق نے دنیا کا بہترین معاشی نظام دیا، آج ہمارے حکمران ایک معاشی نظام کے نفاذ کے لئے متفق نہیں ہو رہے،تقریب میں آمد لر مہمانوں پر پھولون کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور گلدستے پیش کئے گئے۔اختتام پر درود وسلام اور دعا کرائی گئی۔ تقریب میں صدر ہائیکورٹ بار چوہدری طاہر محمود جنرل سیکرٹری غلام نبی طاہر، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل چوہدری ذوالفقار علی سدھو،سابق وائس چیرمین پاکستان بار کونسل مرزا عزیز اکبر بیگ، جنرل سیکرٹری ہائیکورٹ بار سجاد حیدر سپرا، نائب صدر طاہر علی قریشی، مبشر کلاسرا، سابق صدر ہائیکورٹ و راہنما پیپلز پارٹی حبیب اللّٰہ شاکر، سئنیر قانون دان چوہدری فقیر محمد، وسیم ممتاز، سابق صدور اللّٰہ دتہ کاشف بوسن، عظیم الحق پیرزادہ، ایڈووکیٹ مظفر اٹھنگل، مشتاق حیدر ٹیپو، سید عارف شاہ، نوید ہاشمی، نجمہ جٹ راں، نگینہ ہراج سمیت وکلاء کی کثیر تعداد شریک تھی۔
قمرالزمان خان