کورونا کی وجہ سے پنجاب کلچر ڈے کے پروگرام محدود
چیئرمین سینٹ ایک مرتبہ پھر سرخرو ہو چکے ہیں، اقتدار کا ہُما دوبارہ ان کے سر پر قدرت نے بٹھا دیا ہے۔ اس معزز اور محترم ادارے کی سربراہی کے حوالے سے انتہائی پُرامید پی ڈی ایم کے مضبوط ترین سمجھے جانے والے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی زندگی کے مقابلے اور چیلنجز روز افزوں ہوتے ہیں ایک نے ہارنا اور دوسرے نے جیتنا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک کے ماتھے پر فتح یابی کا جھومر سج گیا ہے اور شکست خوردہ کی پیشانی پر ہزیمت کا ٹکہ لگ گیا ہے۔ آج ایک ہارا ہے تو آنے والا کل شاید اس کے لئے کسی نیک شگون کا باعث بن جائے یوں بھی سیاسی کھیل بلکہ دنگل میں کامیابی اور ناکامی بالکل پہلو بہ پہلو چلتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے آج کے دشمن کل کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بن سکتے ہیں،
یعنی دوستی اور دشمنی دونوں ناپائیدار ہوا کرتی ہیں اسے آپ خیر مستور بھی قرار دے سکتے ہیں اور اسے اپنے مطلب کا کوئی اور نام بھی دے سکتے ہیں۔ بہرحال ملک کی دوبڑی اور نو نسبتاً چھوٹی جماعتوں پر مشتمل چند ماہ پہلے قائم ہونے والے نئے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کی منزل اب نزدیک نہیں، بلکہ دور ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ اب تو نہ استعفوں کی دھمکی شاید کارگر ثابت ہوسکے اور نہ دھرنے اور نہ ہی اِن ہاؤس تبدیلی ممکن ہے، کیونکہ اسمبلی میں بھی وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہیں، لیکن اس حوالے سے بات پھر کبھی فی الحال ہم عرض کریں گے صوبہ پنجاب کے حوالے سے جہاں کرونا وائرس کا سر کچلنے اور دوسرے منصوبوں کے لئے خطیر رقم مختص کر دی گئی ہے،نیز لاہور کے آٹھ دس مقامات پر بارشی پانی کو سٹور کرنے کے لئے سٹوریج ٹینکس کی تعمیر کی خوشخبری جبکہ فی الوقت تین واٹر ٹینکس کی تعمیر کی اصولی منظوری دے بھی دی ہے۔
ابھی تو پنجاب میں کلچر ڈے تزک و احتشام سے منانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں کہ کرونا کے تیزی سے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر کلچر ڈے اس جوش سے نہ منایا جا سکا،جس کی توقع اور امید کی جارہی تھی۔ بہرحال کرونا آج نہیں تو کل کافور ہو جائے گا اسی طرح کلچر ڈے کو کسی اگلے خوشگوار وقت کے میّسر آنے تک موخر کر دیا ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ ایک عرصے سے پنجاب میں ثقافتی سرگرمیوں پر سے کسی بھی صوبائی حکمران کی توجہ بالکل ہٹ چکی تھی۔ ایک وقت تھا جب اپنی ثقافت کو اجاگر، زندہ اور روشناس کروانے کے لئے اس میں بہتری لانے کے لئے صوبے کے مختلف شہروں میں ہر سال ہفتہ دو ہفتہ کے لئے ثقافتی تقریبات بالخصوص میلوں ٹھیلوں کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ادبی ثقافتی سرگرمیوں کے علاوہ کشتی، کبڈی، نیزہ بازی، گھڑ دوڑ، جھولے، کلاسیکل اور لوک گلوکار، سرکس تھیٹرز، مال مویشیوں کی نمائش، صنعت و حرفت کے حوالے سے سٹالز اور نہ جانے کیا کیا کچھ تفریح طبع کے لئے موجود ہوتا تھا لیکن آج ہماری یہ ثقافت محض قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے آبائی ضلع فیصل آباد میں ناولٹی پُل سے بالکل قریب ایک انتہائی وسیع و عریض قطعہ اراضی پر ہر سال میلہ مویشیاں لگتا تھا، جس میں ثقافتی سرگرمیاں اپنے نقطہ عروج کو چھو رہی ہوتی تھیں، لیکن وقت کی حکومت نے یہ ثقافتی سرگرمی شہر سے نسبتاً دور بھیج کر وہاں دو دواڑھائی اڑھائی مرلوں پر مشتمل کوارٹرز (جسے آج منڈی کوارٹرز کہا جاتا ہے) تعمیر کر دئیے۔
یہ اگرچہ عوامی فلاحی منصوبہ تھا، لیکن میلہ مویشیاں شہر سے باہر منتقل ہو جانے کی وجہ سے بتدریج زوال کی زد میں آگیا اور آہستہ آہستہ بالکل ہی ختم ہو گیا۔ میں 1996ء سے 1998ء تک اسلام آباد رہا ہوں وہاں فیض آباد اور شکر پڑیاں میں اسی طرح کی سرگرمیاں ہوتی تھیں، تازہ ترین صورت حال کیا ہے معلوم نہیں۔ اس طرح شاید دوسرے شہروں کی صورت حال بھی مختلف نہ ہو بہرحال مقام اطمینان ہے کہ پنجاب حکومت نے ثقافت کو ازسر نو زندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے،یہ ہماری ثقافت کی نشاۃِ ثانیہ بھی سمجھی جائے گی، جسمانی طور پر مضبوط اور تنومند افرادِ معاشرہ ہی مملکت کا چہرہ مُہرہ ہوتے ہیں اور یہ مضبوطی اور تنومندی ثقافتی سرگرمیوں کے بغیر ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں کلچر ڈے منانے کا فیصلہ کیا گیا اب یہ فیصلہ موخر ضرور ہوا، لیکن اس کی داغ بیل ضرور ڈالی جا چکی ہے اور مناسب وقت پر اس کا انعقاد ہو گا۔