یہ جاسوسی کیمرے……!
ماشاء اللہ دوچار روز پہلے جناب ڈاکٹر مصدق ملک اور جناب مصطفی نواز کھوکھر کی ’عقابی نگاہیں‘ اتفاقاً سینیٹ بلڈنگ کی اس چھت پر جا پڑیں کہ جس میں آدھ درجن ’جاسوسی کیمرے“ نصب کئے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے موبائل سے ان جاسوس کیمروں کی وڈیو بنائیں اور ایک ٹی وی چینل پر جا بیٹھے…… بس پھر کیا تھا…… ایک کہرام مچ گیا۔ نجی ٹی وی چینل بریگیڈ نے اس تازہ خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہوا کے دوش پر بکھیر دیا!
پاکستانی سیاسی فضا تو کئی ہفتے پہلے سے بارودی دھوئیں سے لبریز تھی۔ اب ایک تازہ کیس یہ بنایا گیا کہ حکومت (یا حکومت کے کسی ’بہی خواہ ادارے‘) نے یہ خفیہ کیمرے اس لئے نصب کروائے ہیں کہ پولنگ کے دن، سینیٹ کے اراکین کی جاسوسی کی جا سکے اور پتہ چلایا جائے کہ کون کس کو ووٹ ڈال رہا ہے!
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست
اس پراپیگنڈاسٹنٹ کی مندرجہ ذیل انہونیاں اور سوال قابلِ ذکر ہیں:
1۔یہ پانچ سات خفیہ جاسوسی کیمرے کیا اتنے ہی واشگاف، اوورسائز اور نمایاں تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی عقابی نگاہیں فوراً ان پر جاگڑیں اور وہ اپنی ’دریافت‘ کو لے کر ٹیلی ویژن کی ابلاغی کے ٹو پر چلے گئے؟
2۔ کیا جدید جاسوسی کیمرے ایسے ہی ہوتے ہیں؟
3۔کیا نصب کنندگان کی پیشہ ورانہ عقل و دانش اتنی ہی کودن تھی کہ انہوں نے یہ کارِ خیر انجام دیتے ہوئے اس امر پر کوئی غور نہ کیا کہ اگر یہ جاسوسی ڈیوائس کسی ’عقاب‘ کی نگاہوں میں آ جائے گی تو کیا ہوگا؟
میرے تجزیئے کے مطابق درجِ بالا نکات و سوالات کے جواب تھوڑی سی وضاحت چاہتے ہیں جو میں قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں:
ڈاکٹر صاحب کی نگاہوں کو ’عقابی نگاہوں‘ کا خطاب ایک صحافی کالم نگار نے عطا کیا ہے۔ (ملاحظہ کیجئے ان کا کالم جو 13مارچ 2021ء کے ”ڈان“ کے ادارتی صفحہ نمبر06پر شائع ہوا ہے اور جس کا عنوان ہے what does Sanjrani`s win mean?…… فہد حسین صاحب نے اس کالم میں ڈاکٹر مصدق ملک کو عقابی نگاہوں کا حامل (Hawk-eyed) سیاستدان قرار دیا ہے)۔ ڈاکٹر صاحب کی عقاب نگہی کو سات سلام لیکن یہ کیمرے تو اندھوں کو بھی نظر آ رہے تھے۔ اگر کسی نے ان آلاتِ جاسوسی کو بغرضِ جاسوسی استعمال کرنا ہی تھا تو ان کی پوشیدگی اور اخفاء کا یہ کیا بھونڈا طریقہ تھا کہ ان کو کسی چھت کے کونے میں ٹکا دیا جائے اور جو ناظر اوپر نظر اٹھائے 6انچ لمبی یہ تھوتھنی اس کو فوراً دیکھ لے اور پہچان لے!
میرا خیال ہے ڈاکٹر ملک نے جاسوسی کیمرے اگر دیکھے بھی ہیں تو وہ شائد 20،30برس پرانے ہوں گے…… حضور والا! اب تو ان کیمروں کی ایسی ایسی اقسام دریافت ہو چکی ہیں جن کی جاسوسی صفات و خصوصیات پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ذرا اپنے سمارٹ موبائل کو گوگل کریں تو جاسوسی کیمروں کی تصاویر، تکنیکی خصوصیات، طول و عرض، قیمت اور ان کو حاصل کرنے کا ایڈریس سب کچھ فوراً آپ کو مل جائے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ جاسوسی کیمرے سائز میں نہائت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ میں خود 1970ء کے عشرے میں جب ISI میں ایک نو عمر جونیئر (Young) آفیسر کی حیثیت سے پوسٹ تھا تو کئی سینئر برادر آفیسرز کی معرفت ایسے کیمرے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جو آپ کے کوٹ کے بٹن کے سائز اور اسی شکل میں تھے، جو آپ کی انگوٹھی کے نگینے میں فِٹ ہو جاتے تھے اور جو آپ کی کلائی کی گھڑی میں بڑی آسانی سے سما سکتے تھے۔
انہی دنوں کابل میں ہمارے دفاعی اتاشی (کموڈور چنگیزی) نے اس وقت کے افغان وزیر خارجہ جناب سردار نعیم اور روسی وزیر خارجہ مکویان کے درمیان ایک حساس موضوع کی ریکارڈنگ ISI ہیڈکوارٹر میں پیش کی تھی۔ یہ ریکارڈنگ انہوں نے اس کیمرے کی مدد سے کی تھی جو ان کے کوٹ کے بٹن میں آویزاں تھا اور جسے امریکی CIA کے افسروں نے پاکستانی انٹیلی جنس ادارے کو دیا تھا۔(یہ ایک ’بٹن کیمرہ‘ نہ تھا، کئی ’بٹن‘ اور بھی ملے تھے)…… جس آفیسر کے پاس یہ ریکارڈ تھا اس نے بوجوہ مجھ سے رابطہ کرکے پوچھا تھا کہ فلاں دری (فارسی) فقرے کا مطلب کیا ہے اور پھر خود ہی بتایا تھا کہ یہ فقرہ کس پس منظر میں افغان وزیرخارجہ نے ادا کیا تھا …… یہ آج سے 45،46برس پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد بھی مجھے وہاں ISI میں اس طرح کی جاسوسی ڈیوائس دیکھنے کا اتفاق ہوا…… اور اب تو نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ آپ کی آنکھوں میں ایک جاسوسی لینز لگا دیا جاتا ہے جو مخاطب کی تصاویر اتارتا اور اس کی گفتگو ریکارڈ کر سکتا ہے۔ اور آج سے 10،12برس پہلے امریکی CIAنے ایک ایسی Device بھی ایجاد کر لی تھی جو پسِ دیوار ہونے والی گفتگو ریکارڈ کر سکتی تھی اور تصویر بھی اتار سکتی تھی۔
ڈاکٹر محمد حسین ہیکل، مصر کے جمال ناصر کے جب وزیرخارجہ / اطلاعات تھے تو قاہرہ سے جمال ناصر کے ہمراہ (1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد) ماسکو گئے تھے۔ اس وقت شاید خروشچیف سوویت یونین کے صدر تھے۔ ان سے بات چیت کے دوران انہوں نے جمال ناصر کو بڑے فخر سے بتایا تھا کہ ہمارے سیاروں میں ایسے کیمرے نصب ہیں جو صحرائے سینائی کے ریگستان میں رینگنے والے Lizzards کی تصاویر بھی اتار سکتے ہیں۔ یہ سن کر حسین ہیکل نے کہا تھا: ”اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب اسرائیلی طیارے ہمارے ائر چیف، ائر مارشل عامر کے طیاروں کو نشانہ بنا رہے تھے تو آپ کو یہ سب کچھ معلوم تھا۔“…… یہ سن کر خروشچیف کے ماتھے پر پسینہ آ گیا تھا اور صدر جمال ناصر نے ہیکل کو غصے سے دیکھ کر چپ کرا دیا تھا……
یہ واقعہ آج بھی ڈاکٹر حسین ہیکل کی کتاب میں دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے…… میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جاسوسی کیمرے اور سروے لینس کیمرے کوئی نئی ایجاد نہیں ہیں اور اگر پاکستانی ’اداروں‘ نے ان سے کام لینا تھا تو کیا وہ چھت میں 6انچ باہر نکلی ہوئی Device نصب کرکے لیتے یا ان کا طریقہء ارتکابِ واردات کچھ اور ہوتا…… یہ وضاحت کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی۔ لیکن میں اپنی سیاسی قیادت اور صحافتی برادری کی کوتاہ دامنی اور کم علمی پر حیران ہوں۔ ان کی دانش اور زیرکی شاید ایک مخصوص سانچے میں ڈھل کر ایک محدود سے دائرے میں مقید ہو گئی ہے…… میں لاہور کی جس کالونی (عسکری ون) میں رہتا ہوں وہاں ہر تیسرے گھر کے سامنے ایک خفیہ کیمرہ نصب ہے جو آنے جانے والوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کو جب تک باریک بینی سے نہ دیکھا جائے، قطعاً معلوم نہیں ہوتا کہ وہ وہاں لگا ہوا ہے!
اب رہا یہ سوال کہ اگر یہ جاسوسی کیمرے اتنے ہی نمایاں تھے تو ان کو کس کے حکم سے لگایا گیا؟…… کیا سینیٹ بلڈنگ میں ایسی Devices لگانے کی اجازت ہے؟…… اگر ان سے اراکین سینیٹ کی جاسوسی مقصود نہ تھی تو اور کیا مقصد تھا؟…… ان سوالوں کا جواب تو انکوائری رپورٹ آنے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا۔ جناب چیئرمین کو اس سکینڈل کی پوری پوری انکوائری کروانی چاہیے اور جو افراد اس میں ملوث ہوں ان کو سزا دینی چاہیے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شاید پرانے کیمرے تھے جو کبھی اس عمارت کے اندر یا باہر سروے لینس کی غرض سے لگائے گئے ہوں گے اور جب نیا سروے لینس سسٹم آ گیا اور یہ پرانے کیمرے ببکار ہو گئے تو ان کو کسی گودام میں ڈمپ کر دیا گیا۔ عین ممکن ہے کسی نیم خواندہ سینیٹ ملازم نے ان کو ’کسی‘ کے کہنے پر سٹور سے نکال کر نصب کر دیا ہو۔ لیکن یہ کام دن کو تو نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ رات کی تاریکی میں کسی سیکیورٹی انچارج کی ملی بھگت سے یہ ’معرکہ آرائی‘ کی جا سکتی ہے……
اگر اس کا مقصد ووٹ کاسٹ کرنے والوں کی جاسوسی تھی اور یہ معلوم کرنا تھا کہ وہ کس کے نام کے سامنے مہر لگا رہے ہیں تو یہ کارروائی ان کیمروں کی آنکھ سے عکس بند نہیں کی جا سکتی تھی۔ اگر پولنگ بوتھ کے اوپر بھی کوئی کیمرہ لگا ہوا تھا تو وہ مہر لگے اور تہہ کئے ہوئے کاغذ کو نہیں دیکھ سکتا تھا…… کاغذ کا سائز اتنا چھوٹا تھا اور پھر تہہ کرکے پولنگ بوتھ سے نکلنا ایک ایسی ایکسرسائز تھی جس کی فلم بندی تو ممکن تھی۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ دیکھا جا سکتا کہ مہر کس خانے میں لگائی ہوئی ہے…… ہاں ایک بات ممکن تھی کہ جب کوئی رکن ووٹ پر مہر لگا چکتا تھا اور اسے معلوم ہوتا کہ اس کے اوپر خفیہ کیمرہ اس کی فلم بنا رہا ہے تو وہ کاغذ کو فولڈ کرنے سے پہلے اس کو کھول کر کیمرے کو ’اجازت‘ دے سکتا تھا کہ وہ اس کی تصویر اتار لے…… لیکن کیا سینیٹ کے 98اراکین کے علم میں یہ بات تھی کہ ان کے سر پر لگا کیمرہ ان کی جاسوسی کر رہا ہے اور اس کی تصویر اتار رہا ہے؟
اب آگے چلتے ہیں …… پی ٹی آئی کا آئندہ پروگرام یہ ہے کہ 2023ء کے عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کا وہی طریقہ اپنایا جائے جو ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ اس پر وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کام کر رہی ہے۔ اپوزیشن کا فرض ہے کہ وہ اس طریقے کی خوبیوں اور خامیوں کا تکنیکی جائزہ لے اور ابھی سے اس پر کام شروع کر دے۔ یہ وقت نہایت قیمتی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کی ساری سائنس اور ساری تکنیک کا مطالعہ اپوزیشن کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ جب چڑیاں کھیت چگ جائیں تو رونا دھونا شروع کر دیا جائے۔