دو گھروں کے درمیاں 

دو گھروں کے درمیاں 
دو گھروں کے درمیاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ سماجی رواج عموماً ہر جگہ پایا جاتا ہے کہ لڑکا جس گھر میں پیدا ہوتا ہے وہ اسی گھر میں ساری زندگی گزارتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہمیشہ وہی اس کا گھر شمار ہوتا ہے لیکن لڑکیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ وہ ایک گھر میں پیدا ہوتی ہیں، ہوش سنبھالتی ہیں، اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں، سکول فیلوز، سہیلیوں، محلہ داروں، شہرداروں اور آس پاس کے ماحول کے ساتھ اپنی زندگی گزارتی ہیں۔ جب وہ بڑی ہوتی ہیں، اس دنیا سے پوری طرح جُڑ چکی ہوتی ہیں اور ذہنی، نفسیاتی اور سب سے بڑھ کر جذباتی اعتبار سے اس میں ڈوب چکی ہوتی ہیں تو عین اس کے عروج پر ان کو بتایا جاتا ہے کہ اب انہیں اس منظر سے الگ ہونا ہے یعنی جن شاخوں پر وہ چہچہاتی رہی ہیں وہ دور اب تو گیا ہے۔ جہاں انہوں نے خوشیوں سے بھرپور اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے ماں باپ کی تخلیق کردہ محبت بھری محفوظ فضاء میں گزارے تھے وہ اب مزید میسر نہیں آئیں گے، جس گھر سے وہ ہمیشہ جڑی رہی ہیں، جس سے الگ ہونے کا انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا، اس کو چھوڑنے کا حکم صادر ہوتا ہے اور یہ فیصلہ بھی سنایا جاتا ہے کہ انہیں ایک اجنبی شخص سے تعلق جوڑنا ہے۔ یہ تعلق محبت میں ڈھلتا ہے یا نہیں، یہ بات اہم نہیں ہے۔ اس اجنبی شخص کے گھر کو ان کا گھر قرار دے کر وہاں باقی زندگی گزارنے کا پروانہ ایک نکاح نامے کی صورت میں ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ انہیں یہ جوا کھیلنا ہی پڑتا ہے کہ انہیں بتایا جاتا ہے یہی ان کا مقدر ہے۔ نئے اجنبی ماحول میں انہیں پہلے ماحول جیسا آرام، توجہ، عزت اور محبت ملتی ہے یا نہیں، یہ بعد کی بات ہے۔ انہیں ہر طرح کے اچھے یا بُرے سلوک سے عموماً خود اکیلے ہی نمٹنا پڑتا ہے۔
اس طرح لڑکوں کے برعکس لڑکیوں کی زندگی دو گھروں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ سماجی رواج کے مطابق ”تقسیم“ شائد مناسب لفظ نہیں ہے۔ سسرال یا دوسرے گھر کو ہی لڑکیوں کا اصل گھر قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے پہلے گھر یعنی میکہ کہلانے والے ماں باپ کے گھر سے وہ جتنا زیادہ لاتعلق ہوتی ہے اتنا زیادہ وہ سگھڑ اور وفا شعار شمار ہوتی ہے۔


لڑکیوں کے دو گھروں کے درمیان زندگی گزارنے کا مختصر سایہ مسئلہ جو ہم نے پیش کیا ہے اس کا مقصد اس سماجی نظام پر اعتراض نہیں ہے۔ بلکہ ہم اس تحریر میں لڑکیوں کی لڑکوں سے مختلف زندگی گزارنے کے اس عمل کا جذباتی اور مادی جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ کوشش کریں گے اس ایک ہی کالم کے مختصر دامن میں اپنی تجاویز کا تفصیلی نہ سہی کم از کم بنیادی خاکہ پیش کر سکیں۔ ہمارا یہ تصور یقینا ہمارے سماجی نظام اور مذہبی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے وضع کیا گیا ہے جس میں جہیز کی ناپسندیدہ روایت کو لڑکی کے مالی اثاثے رکھنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک نئی صورت مل جائے گی۔


یہ تجاویز ایک متوسط گھرانے کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کی گئی ہیں۔ نچلی سطح یا زیادہ دولت مند گھرانوں پر اس طریق کار کا اطلاق کرتے ہوئے کچھ ایڈجسٹمنٹ کی جا سکتی ہے۔ ہم آغاز کرتے ہیں ایک صاحب حیثیت متوسط گھرانے سے جہاں ماں باپ کے ساتھ ایک دو بیٹے اور ایک دو بیٹیاں رہتے ہیں۔ نیا گھر بنائیں یا پہلے سے موجود گھر میں حسب توفیق، گھر کے سربراہ ماں باپ کے کمرے کے ساتھ لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ کمرے ہوں۔ اگر آغاز میں استطاعت نہ ہو یا کمرے کم ہوں تو دو لڑکوں کو ایک اور دو لڑکیوں کو ایک کمرہ دیا جا سکتا ہے۔ کمرے کم ہوں یا زیادہ اگر ہر لڑکی کو الگ کمرہ نہ مل سکے تو ایک سے زیادہ بہنیں ایک کمرے میں بھائی کے کمرے سے الگ رہیں اور جیسے لڑکیاں بڑی ہوں تو ان کے لئے الگ کمرہ بنانے کی گنجائش پیدا کریں۔ اگر حالات اجازت نہ دیں تو دو بہنوں کو ایک کمرہ ملنے کی صورت میں اس کمرے کے پارٹیشن کئے بغیر دو حصے بنائے جائیں جہاں وہ اپنی الگ الگ چیزیں رکھ سکیں۔ لڑکیوں کو اپنے ماں باپ کے گھر میں پیار محبت کے ساتھ خود اعتمادی بھی ملنی چاہیے وہ اپنی پڑھائی کریں اور ساتھ ساتھ اپنے کمرے میں اپنی بنیادی سہولت کی اشیاء رکھیں۔ ان کو بچت کی عادت ڈالیں۔ اپنے ماں باپ، عزیز و اقارب سے ملنے والے تحائف اور نقدی کو جمع کریں۔ ان کے والدین کی نگرانی میں الگ سیونگ اکاؤنٹ کھولے جائیں اور جب زیادہ عمر کی ہوں تو پھر ان کے نام کے اکاؤنٹ بن سکتے ہیں۔


اس تصور کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ماں باپ کے گھر میں جہاں لڑکی ہوش سنبھالتی ہے وہاں اسے پیار محنت، توجہ اور عزت کے ساتھ گھر کا برابر کا فرد تسلیم کرتے ہوئے اپنے الگ اثاثے بنانے، الگ کمرہ رکھنے، الگ اکاؤنٹ کھولنے اور اس میں اضافے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ترجیحاً ماں باپ کی زندگی ہی میں لڑکوں کے ساتھ زرعی زمین یا شہری جائیداد کا حصہ دے دیا جائے جو اس کی صوابدید پر ہو۔ بہتر ہو لڑکی شادی کے باوجود ماں باپ کے گھر میں بنائے گئے اثاثے یا جائیداد میں سے اپنے حصے کو اپنے ماں باپ کے گھر ہی رہنے دے لیکن اس کی ملکیت اس کے پاس ہونی چاہیے۔


لڑکے کا گھر تو وہی رہے گا جو اس کے ماں باپ کا گھر ہے۔ اسے ماں باپ سے وراثت ملے گی وہ بعد کی بات ہے لیکن پڑھائی کے دوران یا بعد میں کاروبار یا ملازمت کرنے کی صورت میں اسے بھی اپنے الگ بیڈ روم میں اپنی بہن کی طرح اپنی ضروری اشیاء اپنے اثاثے رکھنے، جمع کرنے اور الگ اکاؤنٹ بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ لڑکا جب تک ایک خاص سطح تک اپنے اثاثے نہ بنالے اس کی شادی نہ کی جائے۔اب آپ ایک صاحب حیثیت متوسط گھرانے کا سوچیں جہاں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔ ماں باپ نے اپنے کاروبار یا ملازمت سے گھر بنایا ہو۔ اس میں ایک ڈرائنگ روم،ڈائننگ روم، کچن اور بچوں کے تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ کمرے موجود ہیں، جس لڑکے کی شادی ہونی ہے وہ بھی اپنے کمرے میں ضرورت کی بنیادی چیزیں جمع کر چکا ہے۔ اس کا مناسب بینک اکاؤنٹ بھی ہے جو شادی کے بعد میاں بیوی کے مشترکہ اخراجات اٹھانے کا حامل ہے۔اب واپس جاتے ہیں۔ ماں باپ کے گھر لڑکی کی طرف جو پڑھائی کے بعد ابھی ملازمت کرتی ہے یا نہیں کرتی لیکن وہ خود اعتمادی کے ساتھ وہاں تمام سہولتوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اس کے ذاتی اثاثے اور الگ بینک اکاؤنٹ بھی ہیں۔ اس نے اپنے شوق کے مطابق اچھے ڈیزائن کے ڈریس جوتے یا ذاتی استعمال کی ضروری اشیاء بھی جمع کر رکھی ہیں۔ یہ لڑکی شادی کے بعد نئے گھر میں منتقل ہوتی ہے وہاں لڑکے نے اپنے الگ کمرے میں پہلی ہی ضروری اشیاء جمع کر رکھی ہیں اور اگر کسی چیز کی کمی ہو تو اس کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹ ایسے ہیں کہ وہ انہیں آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔


لڑکی کسی جنگل میں رہائش کرنے تو نہیں جا رہی وہ ایک مکمل گھر میں جا رہی ہے جہاں ماں باپ کے پاس گھر کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ صوفہ سیٹ ڈائننگ ٹیبل کچن کا سامان گاری سب کچھ ہے۔ لڑکی کے اپنے ماں باپ کے گھر میں اس کا کمرہ شادی کرکے چلے جانے کے بعد بھی محفوظ رہنا چاہیے۔ وہ اپنے ڈریس جوتے اور جیولری وغیرہ جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھی یا اس نے خاص طور پر شادی کے لئے بنوائی تھی وہ سسرال لے کر جا سکتی ہے۔ لیکن وہ اس کمرے میں اپنی چیزیں اپنے لاک کے ذریعے محفوظ رکھ سکتی ہے۔


اگر ان تجاویز پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے۔ ایک لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر میں اگر خود اعتمادی کے ساتھ ایک برابر کے اہم فرد کی طرح زندگی گزارتی ہے اور شادی کے بعد اپنے ضروری کپڑوں اور بنیادی ضرورت کی چیزیں کے ساتھ سسرال میں اس کمرے میں لڑکے کے کمرے میں منتقل ہوتی ہے تو اس سارے عمل میں اسے یہ احساس نہیں ہوگا کہ وہ ماں باپ کے گھر کو کھو رہی ہے۔یہ درست ہے سسرال میں لڑکی نے نئی دنیا آباد کرنی ہے لیکن شادی سے پہلے کے گھر اور اس پرانے ماحول سے اسے لاتعلق کیوں کیا جائے۔ شادی سے پہلے بھی لڑکے کی طرح لڑکی کے ذاتی اثاثے تھے جو شادی کے بعد بھی برقرار رہنے چاہئیں۔ نئے گھر میں جس چیز کی کمی ہو گی وہ لڑکے کی ذمہ داری ہے جس نے شادی سے پہلے اس کی مکمل تیاری کر رکھی تھی۔


اب حقیقت پسندی سے غور کریں جس طرح کم حیثیت کی لڑکیوں کے سامان کا ٹرک لوڈ حاصل کرنے کے لالچ میں لڑکے والے منہ کھول کر انتظار کرتے ہیں، اس کا کیا جواز ہے۔ کیا لڑکے کی شادی سے پہلے اس گھر میں اس سامان کی کمی تھی اور فرض کریں لڑکی، لڑکے سے مشورہ کرکے کوئی چیز لانا چاہے گی تو وہ اپنے استعمال کے لئے لائے گی۔ اس کا سسرال والوں سے کیا تعلق ہے۔ اس سے ایک اور آسانی بھی ہو جائے گی، جس گھر کا لڑکا اس طرح آسانی کے ساتھ کسی لالچ کے بغیر دلھن کو گھر لے کر آتا ہے اس سسرالی گھر کو یہ فائدہ ہوگا کہ اس لڑکے کی بہن بھی اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے بیاہی جائے گی۔
اس سارے تصور کا اہم ترین پہلو جذباتی ہے۔ لڑکی کو ماں باپ کے گھر سے مکمل طور پر الگ ہونے کا احساس نہیں ہوتا، وہ جب ماں باپ کے گھر آئے گی تو پہلے کی طرح اپنے کمرے میں بنے  اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے  رہے گی۔ اس طرح لڑکی دو گھروں کے درمیان جذباتی اور مادی اعتبار سے آسودہ ہو کر رہ سکے گی۔ سسرال سے تعلق جڑے گا، لیکن میکے سے تعلق ٹوٹے گا نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -