موت مرنے کا نہیں،بلکہ ایک قطرہ آب کے سمندر میں اُتر جانے کا نام ہے۔فنا سے بقا کی طرف سفر کا پہلا قدم! عام طورپر سمجھاجاتا ہے کہ دنیا سے جانے والا گویا اندھیروں میں اُتر گیا،حالانکہ وہ روشنیوں میں نہا گیا ہوتا ہے۔یہ حق کی راہ ہے، جس پر جلد یا بدیر سب کو روانہ ہونا ہے۔بخوشی یاناخوشی!خوش قسمت وہی ہو گا،جو اپنی قسمت پر خوش ہوا اور سفرِ آخرت کو مسکراتے گنگناتے چلا!
گزشتہ دِنوں راقم الحروف اپنے والد ِ محترم کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگیا۔مرحوم، زندگی کے ہر موڑ پر مسکرائے۔ خدمت ِ انسانی ان کا شعار تھا۔مسیحائی اُن کا پیشہ تھا، جسے انہوں نے عبادت سمجھ کرنبھایا۔اُنہیں ڈاکٹر مختار احمد بٹ کے نام سے جانا پہنچانا جاتا ہے ان کے مریض اب بھی اُنہیں روتے اور دُعاؤں میں یاد کرتے ہیں۔میں نے جانا،مرتے وہ ہیں جو لوگوں کی نظروں سے گِر گئے ہوئے ہیں،جنہیں دِلوں میں اترنے کا ہنر آتا ہو وہ بس موت کا ذائقہ چکھنے اور پھر سفرِ نو کو چل نکلتے ہیں مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ ابو چلے گئے ہیں و ہ زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ان کا عقیدہ تھا کہ موت تو ایک نعمت ہے، جو بندے کو مولاسے جاملاتی ہے۔
احمد نگر چٹھہ، تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ کاایک معروف و زرخیز قصبہ ہے۔
سیاست،ادب، خدمت اور محبت کامرکز! ملک کے نامور نعت گوشاعر جناب حفیظ تائب مرحوم، باکردار سیاست دان چودھری حامد ناصر چٹھہ صاحب، سابق وفاقی سیکرٹری عظیم انسان جناب ساجد حسین چٹھہ مرحوم اور ڈاکٹر مختار احمد بٹ مرحوم کا مسکن!جس طرح کوئی ایک فرد کسی قبیلے کی شاخت ہوتا ہے، بالکل اسی طرح چند شخصیتیں بستیوں کی آبرو! ہمارے قصبہ کی دھوم انہی ناموں سے ہے!قومی صحافت کے درویش مجیب الرحمن شامی صاحب نے اپنے خوبصورت تعزیتی کلمات ادا کئے، جو ہمارے لئے باعث ِ فخر ہیں۔ہم ان کے ہمیشہ سے شکرگزار ہیں جن کا شفقت کاسایہ ہمارے سر پر رہا۔چند قریبی قلم قبیلہ دوستوں نے جن میں رائے ارشاد کمال،آصف عنایت بٹ،منصور آفاق،رانا ابرار ندیم جو غمگین لمحات میں میرے لئے حوصلے کا باعث بنے۔
میرے والد ِ گرامی ایک عجیب قلند رمزاج انسان تھے۔ بھلا سب کا سوچتے،بُراکسی کابھی نہیں لوگ کہا کرتے تھے کہ کسی نے مسکراتا ہواخلوص دیکھنا اور بے لوث رشتوں کاذائقہ چکھنا ہوتو وہ ان سے مل لے۔ مرحوم شعبہ میڈیکل سے تعلق رکھتے تھے جہاں بھی رہے خوش نام اور شاد کام رہے کسی سے گلہ نہ کوئی شکایت ہر رنگ میں ہر سطح پر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے اور اس کے بدلہ میں کچھ بھی نہیں چاہتے تھے۔ بعض اوقات اپنی تنخواہ میں سے بھی غریبوں اور بیواؤں پر لٹا دیتے اس لئے ہم سوچتے تھے کہ ابو شاید بہت بھولے ہیں لوگوں کو دوا کے ساتھ گرہ خود سے پیسے بھی دے دیتے ہیں۔
وہ جب دنیا سے گئے تو کھلا کہ معاشرے میں کس قدر مقبول تھے۔ مخلوق میں مقبولیت خالق کی عطا ہے اب ہمیں صحیح معنوں میں احساس ہوتا ہے کہ تپتے صحرا میں ایک سایہ تھا، جو گزر گیا کتاب نہیں،نایاب،وہ ایک پھول تھا، جو دست ِ قضا میں بکھر گیا اللہ رب العزت انہیں باغ ِفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے۔(آمین ثم آمین)