ظل سبحانی!پھر آپ کس مرض کی دوا ہیں؟
وزیر اعظم جناب عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا "بگل" بچ چکا۔۔۔" نو کانفیڈنس موشن" کے ذریعے حزب اختلاف فاتح ٹھہرتی یا حزب اقتدار مفتوح ہوتی ہے،یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر "کپتان" ان دنوں "وہی باتیں" کر رہے ہیں جو" عوام سے دور حکمران" عام طور پر اپنے اقتدار کے" آخری ایام "میں کرتے ہیں۔۔۔کوئی سر نہ پیر۔۔۔من گھڑت باتیں۔۔.!!!!
خان صاحب نے "نیوٹرل" کی "منفرد تشریح" کے بعد" اپنی سیاست" کی بھی" انوکھی منطق" پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس لیے نہیں آیا تھا کہ "آلو اور ٹماٹر" کی قیمت کا پتہ کروں۔۔.انہوں نے اپنی اس "لیکچر نما موٹیویشنل تقریر" میں حسب معمول ایک مرتبہ پھر ریاست مدینہ کا حوالہ بھی دیا۔۔۔کاش کوئی مذہبی وزیر اور مشیر ہمت کرکے جناب کو کان میں ہی بتادے کہ آقا ریاست مدینہ" تھیوری "نہیں پریکٹیکل سے بنتی ہے۔۔۔احساس سے مزین اس مقدس ریاست میں تو دریائے فرات کے کنارے کتے یا بکری کے بچے کے پیاسا مر جانے پر بھی جوابدہی کا خوف ہوتا ہے اور ہمارے ہینڈ سم پرائم منسٹر مہنگائی ایسے بنیادی عوامی مسئلے کو اپنی ترجیح ماننے کو ہی تیار نہیں۔۔۔!!!!
کوئی سبق سیکھنا چاہے تو ریاست مدینہ کا پہلا چیلنج ہی بڑا سبق آموز ہے۔۔۔"ورلڈ بینک کے بکھیڑوں "میں الجھے ہمارے حکمران چاہیں تو "مواخات مدینہ "کا مطالعہ کرکے "اقتصادی ترقی" کا فارمولہ پا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر امجد ثاقب ان کے لیے ایک مثال ہیں۔۔۔سیرت نگار جناب نعیم صدیقی نے اپنی کتاب "محسن انسانیت" میں ہجرت مدینہ کو تاریخ کا بڑا معاشرتی اور معاشی بحران قرار دیا ہے۔۔۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس "اکنامک کرائسس "کو مواخات مدینہ سے چشم زدن میں حل کر کے ایک عالم گیر رہنما ہونے کا ثبوت دیا۔۔۔وہ کیا منظر ہو گا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجر و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مواخات مدینہ کے تحت ایک دوسرے کا بھائی بنا رہے تھے اور وہ نفوس قدسیہ ایثار کی بے مثال مثالیں رقم فرمارہے تھے۔۔۔
شومئی قسمت کہ وطن عزیز میں بھی ریاست مدینہ طرز کی ریاست کے دعوے تو خوب ہو رہے ہیں مگر ساتھ ہی" بھائی چارے"کو "چارے" کی طرح کترا جارہا ہے۔۔۔بھائی بھائی کا دشمن ہو چلا ہے۔۔۔سیاستدان خاص طور پر ذاتیات میں ایک دوسرے کیخلاف تمام حدیں عبور کرتے جارہے ہیں۔۔۔گھر کے باہر کسی صاحب عزت کی" دستار" محفوظ ہے نہ چاردیواری کے اندر بیٹھی کسی عفت مآب کا "آنچل"۔۔۔!!!!
مرشد مولانا عبدالحفیظ مکی رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب" فضائل اعمال" میں خلیفہ دوئم امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے باب میں" دور فاروقی "کا ایک تاریخ ساز واقعہ نقل کرتے ہیں جو ریاست مدینہ کے بنیادی خدوخال کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔۔۔جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حرہ کی طرف جا رہا تھا۔۔۔جنگل میں ایک جگہ آگ جلتی نظر آئی...حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شاید یہ کوئی قافلہ ہے جو رات ہوجانے کے باعث شہر سے باہر ہی ٹھہر گیا ہے۔۔۔چلیں اس کی خبر لیں اور حفاظت کا انتظام کریں۔۔۔ ادھر جا کر دیکھا تو ایک عورت کے ساتھ چند بچے ہیں جو رو رہے ہیں۔۔۔ چولہا جل رہا ہے اور اس پر دیگچی رکھی ہے۔۔۔.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سلام کیا اور پوچھا بچے کیوں رو رہے ہیں۔۔۔؟؟؟عورت نے کہا کہ بھوک سے لاچار بلک رہے ہیں۔۔۔دریافت فرمایا کہ اس دیگچی میں کیا ہے؟جواب ملا پانی سے بھر کر بہلانے کے لیے آگ پر رکھ دی کہ ان کو تسلی ملے اور سو جائیں۔۔۔امیر المومنین عمر اور میرا فیصلہ اللہ کے ہاں ہوگا کہ میری اس تنگدستی کی خبر نہیں لیتے۔۔۔حصرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے۔۔۔بھلا عمر کو تیرے حال کی کیا خبر ہے۔۔۔؟؟؟؟کہنے لگی وہ ہمارے امیر بنے ہیں اور ہمارے حال کی خبر بھی نہیں لیتے۔۔۔!!!! اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حصرت عمر رضی اللہ عنہ مجھے ساتھ لیکر واپس آئے۔۔۔بیت المال سے کچھ آٹا،کھجوریں،چربی،کپڑے اور درہم لیے اور فرمایا اس بوری کو میری کمر پر رکھ دیں۔۔۔میں نے تین مرتبہ عرض کیا کہ امیر المومنین میں اسے اٹھا لیتا ہوں تو فرمایا کیا قیامت کے دن میرے بوجھ کو تو اٹھائے گا؟آپ رضی اللہ عنہ بوری اٹھا کر جلدی جلدی اس عورت کے پاس پہنچے۔۔۔آٹا،کھجوریں اور چربی دیگچی میں ڈال کر اسے چولہے پر رکھا اور خود ہی پھونکیں مار کر آگ جلانا شروع کر دی۔۔۔اسلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی مبارک سے دھواں نکلتا دیکھ رہا تھا۔۔۔کھانا تیار ہوا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے نکال کر بچوں کو کھلایا۔۔۔وہ خوب سیر ہوکر ہنسی کھیل میں مشغول ہو گئے۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ ان کے قریب ہی ذرا ہٹ کر زمین پر بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر بعد چلے آئے اور فرمایا کہ میں اس لیے بیٹھا کہ میں نے ان کو روتے ہوئے دیکھا تھا...دل چاہا کہ اب ان کو ہنستے ہوئے بھی دیکھوں۔۔۔ عورت بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔۔۔عمر کے بجائے تم اس کے مستحق تھے کہ خلیفہ بنائے جاتے۔۔۔رضی اللہ عنہ۔۔۔!!!
یہ تو تھی ریاست مدینہ کی ایک جھلک اب "سلطنت عمرانیہ "کی جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں...اپنے عہد کے "بادشاہ سلامت" کے مہنگے ترین دور پر" طائرانہ نظر "ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ صرف ایک چیز کا" گراف" اوپر گیا اور وہ ہے "مہنگائی کا طوفان"۔۔۔اعدادوشمار کے مطابق ساڑھے تین سال میں ڈالر کی قیمت 125 سے 180ہو گئی۔۔۔مہنگائی تاریخ کی بلند ترین 26 فیصد پر پہنچ گئی۔۔۔پٹرول کی قیمت 96 روپے سے 160 پر چلی گئی۔۔۔آٹا 35 روپے سے 100، چینی 52 سے 130 روپے کلو اور بجلی 11 سے 26 روپے فی یونٹ ہو گئی۔۔۔گیس کی قیمت میں 100، ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد اضافہ، گھی 140 سے 440 روپے کلو جبکہ کھاد نایاب ہو گئی۔۔۔اور تو اور برائلر مرغی کا گوشت اور انڈہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کا تیسرا مہنگا ترین ملک قرار دیا گیا۔۔۔
عالی جاہ!آٹا،چینی،گھی مہنگا ہو جائے تو آپ کو فرق نہیں پڑتا۔۔.گیس ،پٹرول اور بجلی کے نرخ اونچی اڑان بھریں تو آپ کو تشویش نہیں ہوتی۔۔۔باقی دوائیں تو اپنی جگہ "نایاب" مہنگی پیناڈول پیسے دیکر بھی نہ ملے تو آپ پھر بھی گہری نیند سو جاتے ہیں۔۔۔اب آپ نے ایک عوامی جلسے میں "ببانگ دہل" فرما دیا کہ" آلو اور ٹماٹر "کا بھائو بھی آپ کا "سر درد "نہیں۔۔۔ظل سبحانی!اگر اتنے "بنیادی عوامی مسائل" بھی "آپ کا مسئلہ" نہیں تو پھر آپ کس لیے "کرسی اقتدار "پر بیٹھے ہیں۔۔۔؟؟؟ظل سبحانی! آپ سسکتے بلکتے تڑپتے عوام کی "اشک شوئی" نہیں بھی کرسکتے تو پھر آپ کس "مرض کی دوا" ہیں۔۔۔؟؟؟ ذرا سوچیں!آٹے اورآلو ٹماٹر کو ترستی یتیم بچوں کی کوئی مفلوک الحال ماں آپ کیخلاف اپنا معاملہ اللہ کی عدالت میں لے گئی تو کیا بنے گا؟؟؟
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں