" سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں، آئینی ریگولیٹری باڈی ہے " جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  کے اہم ریمارکس

" سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں، آئینی ریگولیٹری باڈی ہے " جسٹس قاضی فائز ...

  

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں میڈیکل طلبا کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبردینے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا خط پر تنقید کی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ پیمرا نے خط میں چینلز کو ججز کے کنڈکٹ، ریاسی اداروں پر خبر چلانے سے روکا،یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں، آئینی ریگولیٹری باڈی ہے۔

سپریم کورٹ میں میڈیکل طلبا کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبردینے پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا خط پر تنقید کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ حال ہی میں پیمرا نے ججز سے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا،پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے؟تاثر یہ جاتا ہے ، شاید عدالت نے لوگوںکاگلا گھونٹ دیا ہے، پیمرا نے خط میں چینلز کو ججز کے کنڈکٹ، ریاسی اداروں پر خبر چلانے سے روکا،یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں، آئینی ریگولیٹری باڈی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے سٹیٹس میں ترقی کردی ،کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟پیمرا ٹی وی چینلز کو کچھ نشرکرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟سول جج کو گالیاں دے دی جائیں، پیمرا نہیں بولتا،کیا ماتحت عدلیہ کے ججز کم تر مخلوق ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں، کورٹ رپورٹرز خبر دے تو ان کا چینل بند ہو جائے گا؟پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری کو تباہ کر رہا ہے پیمرا انہی ٹی وی چینلز کے لائسنسوں پر کماتا ہے،جب ٹی وی پر خبریں نہیں چلا سکے گا تو لوگ سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے،پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو جائے،کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے، پیمرا کیوں سیشن، سول ججز یا مجسٹریٹ کیخلاف بولنے پر ایکشن نہیں لیتا؟پچھلے سال کیس لگانے کو کہا، رجسٹرار نے مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، کیا سپریم کورٹ کے جج بن جاﺅ تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا؟یہی وجہ ہے پاکستانی عدلیہ کا نمبر140 کے قریب ہے۔