پاکستان کے اقتصاد ی کہوٹہ کی حفاظت کون کرے گا ؟
پاکستان کے لوگ جانتے ہیں کہ اسلام آباد کے نواح میں موجود کہوٹہ کے مقام پر انتہائی حفاظتی انتظامات کے تحت کام کرنے والی خان لیبارٹریز میں پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لئے کس قدر اہم کام کیا گیاہے۔ یہ حقیقت بھی ہمارے علم میں ہے کہ یہ کام کرنے کے لئے اس مقام کی کس قدر سخت حفاظت اورنگرانی کی گئی ہے۔ آج کسی ملک کی بقاء و سلامتی کے لئے اس کی اقتصادی حالت کا مضبوط ہونا کس قدر ضروری ہے، اس سے بھی ہر کوئی خوب آگاہ ہے۔ ہر قوم اپنے دفاع کے لئے کہوٹہ کی طرح اہم مرکز کی حفاظت کے علاوہ اپنے اقتصادی کہوٹہ کی بھی بھرپور حفاظت پر مستعدرہتی ہے۔ ایک نظریہ اقوام عالم کے درمیان ہر طرح کی چپقلش اور کشیدگی کی تہہ میں محض ان اقوام کے اقتصادی مفادات کی کشمکش موجود ہے۔ ہندو کی سخت مخالفت کے باوجود برصغیر میں ہم مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ ملک قائم کیا۔ ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے کی وجہ سے ہمارے دشمن پہلے روز ہی سے پاکستان کے خلاف سرگرم ہوگئے ۔ باہر کے حملوں کے ساتھ اندرون ملک سے بھی ہمیں کمزور کرنے کے لئے باہمی نفرت اور عداوت پیدا کرکے قوم کو تقسیم کرنے کا کام کیا گیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان اور پھر موجودہ دور میں دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد دشمن کے ناپاک عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ سب سے زیادہ زور ہمارے اعلیٰ عہدیداروں اور سیاسی قیادت کو کرپٹ کرکے ہماری حکومتی مشینری کو ناکارہ کرنے پر دیا گیا۔ بے حد قومی اہمیت کے منصوبوں کو بھی پس پشت ڈالا جاتا رہا۔ ہمیں یورپین یونین کی طرف سے خصوصی درجہ دلایا گیا، تاکہ ہم یورپ کو زیادہ سے زیادہ برآمدات کرکے اپنی اقتصادی پوزیشن مضبوط کرسکیں، لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میں ایسے حالات پیدا کردئیے گئے کہ ہماری صنعتی پیداوار بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی۔ بجلی کا بحران پیدا کرنے کے لئے ہمیں ان گنت مسائل اور غلط منصوبوں میں پھنسایا گیا۔ ہماری سونے تانبے ، اور قیمتی پتھروں کی کانیں، جو سرکاری طور پر بظاہر بند پڑی ہیں، ان سے مافیا اوپر کے لوگوں سے مل کر اربوں کھربوں کی کان کنی کر رہا ہے، لیکن قومی خزانے میں ایک پیسہ نہیں جارہا۔
ہماری قابل رشک ائر سروس پی آئی اے کے ساتھ ظالمانہ سلوک مسلسل جاری ہے، اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے منصوبے ہیں۔ اسی طرح قومی سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے پر کھربوں کی سرمایہ کاری کے بعد قوم کو اربوں کا منافع کما کر دینے کے بجائے الٹا ان کے خسارے کے نام پر اربوں روپے سالانہ کا مزید بوجھ قوم کے سرپرلادا جارہا ہے۔ ان اداروں کو خسارے میں ہونے کے بہانے برائے نام قیمت پر پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کے پروگرام ہیں۔ ساری صورت حال میں تضاد یہ ہے کہ دوسری طرف کھربوں روپے کے مصارف سے اورنج ٹرین اور میٹرو بس سروس جیسے خسارے والے نئے ادارے بھی قائم کئے جارہے ہیں۔ ان ادروں کا اربوں روپے سالانہ کا خسارہ بھی قوم کے سر کیا جارہا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے لوٹے ہوئے کھربوں ڈالر بیرونی ممالک کے بینکوں میں پڑے ہیں ۔ ان ممالک اور ان بیرونی بینکوں کی انتظامیہ کی طرف سے اکثر اوقات ایسے بیانات سامنے آتے ہیں کہ ان کے پاس موجود پاکستانیوں کی بھاری رقوم عموماً قومی خزانے سے لوٹی ہوئی رقوم ہیں ۔ اکثر ان لوگوں کی طرف سے یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر پاکستانی حکومت چاہے تو ہم یہ تمام رقوم پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرانے کے لئے تیار ہیں ،تاکہ مسائل میں گھری ہوئی پاکستانی قو م اپنی رقم واپس ملنے پر غربت اور افلاس سے نجات پاسکے، لیکن کسی بھی حکمران نے ایسی غیرت اور قومی حمیت کا ثبوت نہیں دیا جس کی غیر ملکی ان سے توقع کرتے رہے ہیں۔۔۔ تاہم دوسرے ممالک کے انسانیت دوست افسروں کے ہوتے ہوئے وہاں کے ایسے غیر ملکی ادارے زیادہ طاقتور اور موثر ہیں، جن کے دلال آ آکر ہمارے بیوروکریٹس کو لمبے چوڑے کمیشن بنانے کے لئے منصوبے بنا کر دیتے ہیں اور ان کے ذریعے ہماری معیشت کی جڑیں کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔
ہر طرح کی تحقیق اور جستجو اور سوچ بچار کے بعد پاکستان کا درد رکھنے والے محب وطن لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے دشمنوں کی پہلے روز ہی سے ہماری معیشت پر گہری نظریں تھیں ۔ دنیا پاکستان کو قدر ت کی طرف سے ودیعت کردہ بے مثال وسائل،ہماری قوم کی بے پناہ صلاحیتوں ، قومی جذبے اور محنت و جد و جہد سے آگاہ تھی ۔ عالمی طاقتوں نے ابتدا ہی سے ہمارے متعلق فیصلہ کرلیا تھاکہ اس قوم کی ٹانگ کھینچ کر رکھنا ضروری ہے، ورنہ یہ تعمیر و ترقی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ کر ایک بڑی طاقت بن جائے گی۔ عالم اسلام کی امنگوں کا مرکز بنے گی اور عالم اسلام اس کے جھنڈے تلے متحد ہو کر خوشحالی کی منزل کی جانب گامزن ہوجائے گا۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو انرجی کے مسائل سے دوچار رکھنا ضروری ہے۔ اب چین کے تعاون سے اگر ہم ملک میں سٹرکوں کا جال بچھاتے ہیں اور ہمارا ملک ارد گرد کی طاقتوں کی زمینی تجارت کے لئے گذر گاہ کا کام دیتا ہے، ، اس سارے کام میں سرمایہ کاری بھی چین یا دوسرے ملکوں کی ہو، ہماری صنعت اور برآمدات میں اسی طرح تیزی سے کمی واقع ہوتی رہے تو برآمدات کرنے والا صنعتی ملک نہیں، بلکہ محض جنوبی ایشیا کا ٹریڈ کاریڈور (تجارتی گذرگاہ) بن کر رہ جائیں گے۔ اس سے قوم کی حیثیت ایک خود مختار اور باوقار قوم کے بجائے دوسروں کے حاشیہ بردار کی سی رہ جائے گی۔کسی بھی شراکت داری یا کام میں بالا دستی ہمیشہ سرمایہ دار کو حاصل ہوتی ہے۔ مرضی بھی اسی کی چلتی ہے اور بھاری منافع بھی وہی سمیٹتا ہے۔
ہمارے ملک کو تجارتی گذرگاہ بنانے والے سرمایہ دار اگرپنے مزدور بھی یہاں خود ہی لائیں ، اپنے گزرنے والے ٹرکوں کے لئے ورکشاپس اور ہوٹل بھی خود ہی قائم کریں ، اور نئی تعمیر ہونے والی موٹر ویزکے ساتھ صنعتی علاقے قائم ہونے کے کھوکھلے وعدوں سے ہمارے حاکم اسی طرح ہمیں نوازتے رہیں، جس طرح کہ انہوں نے ملک میں پہلے سے موجود موٹر ویز کے ساتھ صنعتی مراکز قائم کرنے کے وعدوں سے قوم کو نوازا تھا ، تو پھر یہ ساری صورت حال ہمیں اقتصادی طور پر مضبوط بنانے کے بجائے حکمرانوں کے بھاری بھرکم لگ بیکس حاصل کرنے کے منصوبوں ہی تک محدود رہے گی ۔ اب تک ہمارا ملک سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے جس بے رحم رویے اور ہوس کا شکار رہا ہے ، یہ سب حقائق سیاستدانوں یا کسی اور کے مختلف چینلوں اور اخباروں کی سرخیوں میں چیخنے چنگھاڑنے سے بدلے نہیں جاسکتے۔اب لوگ کہے سے زیادہ کئے پر اعتبار کرنے لگے ہیں۔ لوگوں کی بے بسی اور ضرورت انہیں جوابی طور پر چنگھاڑنے سے روکے رکھے، تو یہ الگ بات ہے۔ اپنی بے بسی کی بناء پر ہی عام لوگ اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ جی اس ملک کا کوئی والی وارث ہی نہیں ہے۔۔۔ تاہم جو بھی اس ملک کا والی وارث ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے والے کہوٹہ ریسرچ سینٹر کی طرح پاکستان کے اقتصادی کہوٹہ پر بھی توجہ دے۔ اس ملک کے بیوروکریٹس اور سیاستدان آج تک ملکی مفاد اور بھلائی کے ایسے ہزاروں بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبوں کو ناکام بناچکے ہیں، جس سے ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی۔ بددیانت بیوروکریٹس اپنے غیر ملکی آقاؤں کے حکم پر خود بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ملکی تقدیر سنوارنے والے ان گنت منصوبوں کو بھی پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے رہے ہیں۔ برین ڈرین کا قومی المیہ ہماری تاریخ کا ایک الگ باب ہے۔ آئندہ کالموں میں ایسے بہت سے انسانیت دشمن حقائق سے پردہ اٹھایا جائے گا، ان شاء اللہ۔