مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر90

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر90
مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر90

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کمال اور رانی کی شادی ہوگی یا نہیں ہوگی؟ قیاس آرائیوں کا یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا یہاں تک کہ ایک روز کمال کی شادی کی خبر آگئی۔ یہ خبر دوسروں کی طرح رانی نے بھی سنی۔ اس لیے کہ کمال کی شادی ان سے نہیں کسی اور گھریلو لڑکی سے ہوئی تھی۔ اس طرح کمال کی آزادیوں کا دور ختم ہوگیا۔ شادی کے بعد کمال میں کافی نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک ذمہ دار شوہر اور شفیق باپ کے روپ میں نظر آئے۔ بھابی کی وجہ سے ان میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کسی زمانے میں وہ کنجوس مشہور تھے۔ وہ اسے کفایت شعاری کا نام دیتے تھے۔ شادی کے بعد ان کی کنجوسی اور کفایت شاعری کچھ کم ہوگئی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ شادی کے بعد کمال کے نام سے کوئی اسکینڈل منسوب نہیں ہوا۔
لاہور کے ایک قدم محلے مزنگ کی ایک گلی میں ایک غریب گھرانے میں جنم لینے والی لڑکی کا نام اس کے ماں باپ نے ناصرہ رکھا تو پاس پڑوس والے بھی اس کو نہیں جانتے تھے۔ مگر جب مغنیہ مختار بیگم نے اس لڑکی کو اپنی سرپرستی میں لیا اور اسے ’’رانی‘‘ کا نام دیا تو دیکھتے ہی دیکھتے سارا پاکستان اس سے واقف ہوگیا۔

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر89 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ناصرہ کے والدین نہایت معمولی درجے کے لوگ تھے۔ جب اس نے ہوش سنبھالا تو اس کی ماں نے دوسری شادی کرلی تھی۔ سوتیلا باپ رانی کے لیے فرشتہ رحمت ثابت ہوا۔ ہم نے اس قدر بے لوث، مخلص، دیانت دار، سادگی پسند اور بے نیاز کسی اور ہیروئن کے باپ یا سرپرست کو نہیں دیکھا۔ اس کی زندگی کا مقصد محض رانی کی دیکھ بھال اور اسے خوشیاں فراہم کرنا تھا۔ خود اپنی ذات کے لیے اس نے کبھی اتنی سہولت بھی طلب نہیں کی جتنی کہ ایک معتمد ملازم مانگتا ہے۔ فلمی دنیا میں ایسا کوئی دوسرا شخص نہ ہم نے دیکھا، نہ سنا۔ اس شخص کا نام حق صاحب تھا۔
کمسن ناصرہ کی زندگی میں پہلی تبدیلی اس وقت آئی جب وہ مشہور زمانہ گلوکارہ مختار بیگم کی نگاہوں میں آگئی۔ مختار بیگم آغا حشر کے حوالے سے ایک افسانوی شخصیت بن گئی تھیں۔ آغا صاحب نے ان سے باقاعدہ شادی کی تھی یا نہیں، اس بارے میں کوئی مستند ثبوت موجود نہیں ہے۔ مگر انہیں آغا حشر کی زندگی میں اور آغا حشر کو ان کی زندگی میں جو اہمیت حاصل ہوئی وہ ساری دنیا جانتی ہے۔ آغا حشر نے ان کی آنکھوں کے سامنے جان دی تھی اور پھر اپنی باقی زندگی انہوں نے آغا حشر ہی کے نام کردی تھی۔
مختار بیگم کی گائیکی کا ایک زمانہ معترف تھا۔ ان کی آواز کا جادو تو آغا حشر جیسے شخص کے سر چڑھ کر بھی بولتا تھا۔ وہ خود گلوکاری سے ریٹائر ہوئیں تو انہوں نے اپنی چھوٹی بہن فریدہ خانم کو گلوکاری کی تربیت دی اور فریدہ خانم نے ایسی دھومیں مچائیں کہ ’’ملکہ غزل‘‘ کہلائیں۔ بہت سے لوگ فریدہ خانم کو مختار بیگم کی صاحبزادی سمجھتے تھے۔ حالانکہ وہ مختار بیگم کی چھوٹی بہن تھیں۔
مختار بیگم کی تمنا تھی کہ فریدہ خانم کو ایک کامیاب فلمی ہیروئن بنادیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ایک فلم ’’سیلاب‘‘ میں اداکاری بھی کی تھی مگر نہ فلم کامیاب ہوئی، نہ فریدہ خانم، پھر انہوں نے ایک دانائی کا فیصلہ کیا اور اداکاری کا خیال ترک کرکے گائیکی پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔ فریدہ خانم نے گلوکارہ کے طور پر بہت بلند مقام حاصل کیا اور اس میدان میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
فریدہ خانم کو عروج تک پہنچانے کے بعد مختار بیگم کے شوق نے نسیم بیگم کی شکل میں ایک اور کھلونا تلاش کیا۔ نسیم بیگم کو مختار بیگم نے موسیقی اور گلوکاری کے فن میں بہت کچھ سکھایا۔ نسیم بیگم نے بھی موسیقی کے شعبے میں بہت نام پیدا کیا۔ اگر وہ جوان العمری میں فوت نہ ہوتیں تو فلم اور موسیقی کی دنیا میں ایک لازوال مقام حاصل کرلیتیں۔ پھر بھی اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے ڈھیر ساری شہرت سمیٹی۔
حسن طارق صاحب اس زمانے میں ایمی مینوالا کے شوہر تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے نگہت سلطانہ سے شادی کی تھی جو کچھ عرصے بعد طلاق پر منتج ہوئی۔ ایمی ایک مثالی بیوی تھیں۔ طارق سے عشق کرتی تھیں۔ یہ شادی انہوں نے اپنی فطرت کے خلاف بہت لڑ جھگڑ کر کی تھی۔ طارق کی وہ پرستش کرتی تھیں۔ ان کا ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ طارق صاحب کو ان سے کیا شکایتیں تھیں یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ مگر دو دن بعد ہم نے طارق صاحب کو ٹیلی فون پر رانی سے گفتگو کرتے ہوئے پایا۔ ٹیلی فون کی گفتگو ملاقات پر ختم ہوئی۔ اور بڑھ کر ملاقاتوں کی شکل اختیار کرگئی۔ طارق صاحب نے سرسری انداز میں ذکر تو کیا مگر ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ رانی سے شادی کرلیں گے۔ اس زمانے میں رانی گلبرگ میں کرائے کی کوٹھی میں رہتی تھیں جو کمال کی کوٹھی کے عقب میں تھی۔
طارق صاحب نے رانی کے گھر آنا جانا شروع کیا تو یہ بات چھپی نہ رہ سکی۔ فلمی دنیا میں ایسی باتیں عشق اور مشک کی طرح ہوتی ہیں۔ زیادہ عرصے درپردہ نہیں رہ سکتیں۔ چنانچہ رانی اور طارق صاحب کے میل جول کی داستانیں بھی فلمی حلقوں میں مشہور ہونے لگیں۔ ایمی مینوالا گھر کی چاردیواری تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ ہمارے سوا فلم کے لوگوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ انہوں نے فلم میں اداکاری چھوڑ دی تھی اور تقریبات سے بھی دور ہی رہتی تھیں۔ اس کے باوجود ایمی کے کانوں تک یہ خبر پہنچ گئی۔
ایک دن ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے سادگی سے کہا ’آفاقی صاحب، کیا طارق صاحب رانی سے ملنے جاتے ہیں‘‘۔
یہ سوال اتنا اچانک تھا کہ ہم گھبرا گئے۔ ہم نے کہا۔ ’’ہاں، جاتے تو ہیں، دراصل رانی کو فلموں میں کاسٹ جو کر رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے افسردگی سے کہا ’’آفاقی صاحب مجھے بہلائیے نہیں۔ سچ سچ بتائیں اصل بات کیا ہے‘‘۔
ہم نے انہیں یقین دلانے کے لیے کہا ’’دیکھو ایمی! طارق صاحب رانی سے ملتے ضرور ہیں مگر شادی وادی کی باتیں بالکل غلط ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا‘‘۔ اس وقت تک ہمارا واقعی یہی خیال تھا۔
ایمی نے کہا ’’فلم کے لیے اسٹوڈیو میں بھی مل سکتے ہیںَ مگر وہ رانی کے گھر کیوں جاتے ہیں‘‘۔
ہم نے کہا ’’ہر روز تو نہیں جاتے‘‘۔
مگر ایمی نے ایک دن ٹیکسی میں سوار ہوکر گلبرگ کا چکر لگایا تو رانی کے گھر کے سامنے حسن طارق صاحب کی کار کھڑی نظر آگئی۔ اس طرح ایمی اور حسن طارق کے مابین خلیج وسیع ہوتی رہی یہاں تک کہ علیحدگی ہوگئی۔ ایمی کو ہمارا سمجھانا بجھانا بے کار ہوگیا۔ اس لیے کہ دراصل یہ فیصلہ طارق صاحب کا تھا۔ انہوں نے اس بارے میں ہم سے کبھی بات نہیں کی حالانکہ ایمی سے ان کی شادی کے معاملے میں انہوں نے ہمیں پیش پیش رکھا تھا۔ لیکن ان معاملات میں شکوہ شکایت بیکار ہے کیونکہ شاعر نے کہہ دیا ہے کہ ؂
دل کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں
طارق صاحب نے نہ تو ایمی سے علیحدگی سے پہلے ہمیں اعتماد میں لیا اور نہ رانی سے شادی کے بارے میں کبھی بات کی۔
ایک دن انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ’’آفاقی صاحب میں رانی سے شادی کر رہا ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’جو کام کرنے کا آپ نے فیصلہ ہی کرلیا ہے اس کے بارے میں کوئی کیا خیال ظاہر کرے۔ ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں‘‘۔
اس طرح حسن طارق صاحب اور رانی کی شادی ہوگئی۔(جاری ہے)

مختلف شخصیات کے سکینڈلز سے بھرپورفلمی الف لیلیٰ۔ ۔ ۔ قسط نمبر91 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)